اسلام آباد: قومی ادارہ صحت نے نئے وائرس منکی پوکس کے حوالے سے الرٹ جاری کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکام منکی پاکس مشتبہ کیسز کے حوالے سے ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے ۔ ملک کے داخلی راستوں بشمول ایئرپورٹس پر مسافروں کی نگرانی کرنے کی ہدایت جاری کردی گئی جبکہ سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں کو بھی آئسولیشن وارڈ قائم کرنے کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ دوسری جانب وزارت صحت کے ترجمان نے کہا ہے کہ دنیا کے چند ترقی یافتہ مملک مثلا برطانیہ، اسپین اور کینیڈا میں منکی پاکس کے کیسز کی تشخیص کے پیش نظر الرٹ جاری کیا گیا ہے تاہم ابھی تک پاکستان میں منکی پاکس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ منکی پاکس کیا ہے اور اس کی علامات ؟ منکی پاکس کا شکار ہونےوالے افراد کی ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، سوجن، کمر میں درد، پٹھوں میں درد اور عام طور کسی بھی چیز کا دل نہ چاہنا شامل ہیں۔ وائرس سے زیادہ متاثر ہونےوالے افراد کو شدید خارش اور جسم کے مختلف حصوں پر دانے نکلنے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ کیسے پھیلتا ہے؟ جب کوئی متاثرہ شخص کے ساتھ قریبی رابطے میں ہوتا ہے تو اس میں منکی پاکس پھیل سکتا ہے۔ یہ وائرس ٹوٹی اور پھٹی ہوئی جلد، سانس کی نالی یا آنکھوں، ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔ اسے پہلے جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن کے طور پر بیان نہیں کیا گیا تھا، لیکن یہ جنسی تعلقات کے دوران براہ راست رابطے سے منتقل ہو سکتا ہے ۔ یہ بندروں، چوہوں اور گلہریوں جیسے متاثرہ جانوروں کے رابطے میں آنے سے بھی پھیل سکتا ہے یا وائرس سے آلودہ اشیاء، جیسے بستر اور کپڑوں سے بھی پھیل سکتا ہے۔ وائرس لوگوں کے درمیان آسانی سے نہیں پھیلتا اور اس لیے اس کا بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کے حوالے سے خطرہ بہت کم بتایا جاتا ہے۔ یہ کتنا خطرناک ہے ؟ وائرس کے زیادہ تر اثرات ہلکے ہوتے ہیں، بعض اوقات چکن پاکس سے ملتے جلتے ہوتے ہیں، اور چند ہفتوں میں خود ہی صاف ہو جاتے ہیں۔ تاہم منکی پاکس بعض اوقات زیادہ شدید ہو سکتا ہے، اور مغربی افریقہ میں اس کی وجہ سے اموات کی بھی اطلاعات ہیں جن کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔ وائرس کا علاج؟ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق یہ ایک نایاب وائرل انفیکشن ہے جو اثرات کے اعتبار سے عام طور پر ہلکا ہوتا ہے اور اس سے زیادہ تر لوگ چند ہفتوں میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ منکی پاکس کے اثرات پانچ سے تین ہفتوں میں ظاہر ہوتے ہیں جن میں سے اکثر کو اسپتال منتقل کرنے نوبت نہیں آتی۔یہ وائرس 10 میں سے ایک فرد کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے اوربچوں پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔