اسلام آباد: دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے کورونا وائرس کے خطرے پر سست روی سے ردِ عمل دینے پر وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ’روز بروز بدتر ہوتی‘ صورتحال پر ’قومی حکمت عملی‘ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔ دونوں سیاسی جماعتوں کا کہنا تھا کہ ایران سے متصل سرحد کو کنٹرول کرنے میں وفاقی حکومت کی ناکامی ملک میں وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بنی۔اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، مریم اورنگزیب اور رانا ثنا اللہ نے بات پر افسوس کا اظہار کیاا کہ حکمراں اب بھی اسے ایک چیلنج کے طور پر دیکھنے کے بجائے ’انکاری‘ ہیں۔اس موقع پر شاہد خاقان عباسی نے الزام عائد کیا کہ حکومت کی جانب سے تفتان سرحد کے علاقے میں ناکافی اقدامات کے باعث لوگوں کی ایک بڑی تعداد قرنطینہ مراکز سے فرار ہوگئی۔ ان کا کہنا تھا کہ رپورٹس ہیں کہ تقریباً 500 افراد تفتان سے فرار ہو کر پنجاب آئے اور حکام کو ان کا کچھ اتا پتا نہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بارڈر کے انتظامات میں حکومت کی ناکامی اور بروقت آگاہی مہم نہ شروع کرنے سے پورا ملک خطرے میں پڑ گیا ہے‘۔سابق وزیراعظم نے وزیراعظم عمران خان کو سارک ویڈیو سربراہی اجلاس میں خود شرکت کرنے کے بجائے غیر منتخب مشیر صحت کو نامزد کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ آپ دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ کہ ملک کا وزیراعظم ایسا ہے کہ جو دنیا کے سنگین ترین مسئلے پر خطے کے رہنماؤں سے ایک گھنٹہ نکال کر بات تک نہیں کر سکتا۔ شاہد خاقان عباسی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت نے اس قومی مسئلے پر قومی اسمبلی میں بحث کرنے کی بھی اجازت نہیں دی اور جب اپوزیشن نے یہ معاملہ اٹھایا تو ایک حکومتی وزیر نے کہا کہ حکومت صورتحال سے آگاہ ہے اور یہ کوئی سنگین مسئلہ نہیں ہے۔شاہد خاقابن عباسی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے اس مسئلے پر بات چیت کرنے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس بلانے کی درخواست دینے کا فیصلہ کیا ہے۔دوسری جانب پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے ایک بیان میں کہا کہ ملک کو عالبی وبا کی صورت میں ایسے بحران کا سامنا ہے جس کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی، یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وفاقی کی سطح پر قیادت کا بدقسمت اور پریشان کن بحران ہے۔ شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ بروقت ردِ عمل صرف سندھ سے سامنے آیا جبکہ خطرے کی بات ہے کہ دیگر صوبوں نے ٹیسٹ کرنے میں سست روی برتی اور اس بحران کو کم سنگین سمجھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’راتوں رات متاثرہ افراد کی تعداد 3 گنا ہوگئی جس کا مطلب ہے کہ بحران کی شدت کا اندازہ لگانے میں ناکامی واضح ہے اور کابینہ نے سندھ کے مطالبات کو نظر انداز کردیا جو واحد صوبہ تھا جو بحران کی سنگینی سے انکاری نہیں تھا جبکہ کابینہ نے اپنی وزارت صحت کو بھی رقم دینے سے بظاہر انکار کردیا۔ انہوں نے بین الاقوامی سرحدوں پر اسکریننگ کے معاملات پر سوال اٹھائے اور کہا کہ تفتان بارڈر پر قرنطینہ کی سہولت نے ایمرجنسی ریسپانس کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔رہنما پی پی پی نے پوچھا کہ ’جو افراد تفتان بارڈر سے خیبرپختونخوا، پنجاب، سرحد آئے ان کا ڈیٹا کہاں ہےْ کیا اس صوبوں میں اسکریننگ کی بہتر سہولیات موجود ہیں؟ صرف سندھ حکومت نے کورونا وائرس کیسز کے اعدادو شمار اور ان کے علاج کے حوالے سے تفصیلات فراہم کی ہیں۔