تازہ ترین

کورونا لیبارٹری میں تیار ہوا؟ امریکی خفیہ ایجنسیوں نے تحقیق شروع کردی

کورونا-لیبارٹری-میں-تیار-ہوا؟-امریکی-خفیہ-ایجنسیوں-نے-تحقیق-شروع-کردی

دنیا کے 190 کے قریب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے والی وبا کورونا وائرس سے 16 اپریل کی صبح تک 20 لاکھ 65 ہزار سے زائد افراد متاثر جب کہ ایک لاکھ 37 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے تھے مگر بدقسمتی سے اب تک دنیا کی بہت بڑی آبادی اس وبا کے حوالے سے مخمصے کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ مذکورہ وبا کے شروع ہونے سے لے کر اب تک اس سے متعلق سازشی اور جھوٹی تھیوریز سامنے آتی رہی ہیں جب کہ امریکا اور چین کی حکومتیں بھی اس وبا کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہی ہیں۔ جہاں امریکا نے کورونا وائرس کو چینی وبا قرار دیا، وہیں چین نے بھی امریکا پر الزام لگایا کہ دراصل امریکی فوج ہی ابتدائی طور پر کورونا کو ان کے شہر ووہان لے آئی تھی مگر ایسے الزامات کو ثابت نہیں کیا جا سکا اور یہ سب صرف بیانات اور میڈیا کی خبروں کی زینت تک محدود رہے۔ماضی میں جہاں کچھ تحقیقات میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کورونا کا وائرس چین کے شہر ووہان کی گوشت مارکیٹ سے شروع ہوا اور اس حوالے سے دو مختلف تحقیقات میں 2 مختلف دعوے کیے گئے تھے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ممکنہ طور پر کورونا وائرس 2 اقسام کے سانپوں یعنی چینی کوبرا اور کرایت سے شروع ہوا ہوگا اور پھر اسی مارکیٹ کا دورہ کرنے والے انسانوں میں یہ وائرس سانپوں کے ذریعے داخل ہوا ہوگا یا انہوں نے ان کا گوشت کھایا ہوگا۔امریکی اخبار واشنٹگن پوسٹ نے تین دن قبل ہی اپنے ایک مضمون میں بتایا کہ کورونا وائرس شروع ہونے سے 2 سال قبل ہی امریکی سائسندانوں اور ماہرین نے ووہان کی مذکورہ گوشت مارکیٹ اور ووہان کے بائیوٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کیا تھا اور اس دورے کے دوران ماہرین کی جانب سے دیکھی گئی چیزوں کا تفصیلی احوال انہوں نے امریکی محکمہ خارجہ کو بھجوایا تھا۔ امریکی اخبار کے مطابق چین میں امریکی سفارتخانے کے تعاون سے امریکی ماہرین نے ووہان کی گوشت مارکیٹ کے دورے سمیت ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ورولاجی (ڈبلیو آئی وی) کا دورہ بھی کیا تھا جو کہ بائیوٹیکنالوجی کا ایک اہم ادارہ ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی ماہرین کی جانب سے دورے کے بعد چین میں موجود امریکی سفارتخانے نے امریکی محکمہ خارجہ کو مراسلے بھیجے تھے جس میں سفارتخانے نے ووہان میں وائرس جیسے امکانات کا خدشہ ظاہر کیا تھا اور گوشت مارکیٹ سمیت بائیوٹیکنالوجی ادارے میں ہونے والی تحقیقات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا، تاہم ان مراسلوں میں واضح طور پر نہیں لکھا گیا تھا کہ وہاں پر کسی وائرس کی تیاری کی جا رہی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اگرچہ 2018 میں ہی امریکی ماہرین نے ووہان میں وائرس کے شروع ہونے کے خدشات کا اظہار کیا تھا تاہم متعدد امریکی اداروں کے ماہرین نے دسمبر 2019 میں ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس کو لیبارٹری میں تیار کیا جانے والا وائرس نہیں کہا۔فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں امریکا کے چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مارک ملی کے حوالے سے بتایا کہ کسی کو اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ ہم مذکورہ معاملے کو انتہائی اہمیت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور ہمیں نہیں پتہ کہ سچائی کیا ہے لیکن ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ بھی کیا کہ کورونا وائرس کے حوالے سے چینی حکومت دنیا سے شیئر کیے جانے والے ڈیٹا کے حوالے سے بھی بدنیت ہے اور دیکھا گیا ہے کہ چینی حکومت شفاف انداز میں ڈیٹا کا تبادلہ نہیں کر رہی۔

زیادہ پڑھی جانےوالی خبریں