تازہ ترین

کشمیریوں سےاظہار یکجہتی کیلئےباہرنکلنے پرقوم پرفخر ہے،عمران خان

کشمیریوں-سےاظہار-یکجہتی-کیلئےباہرنکلنے-پرقوم-پرفخر-ہے،عمران-خان

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے پاکستانی قوم پرکشمیریوں سے اظہاریکجہتی کرنے پرفخر ہے، پورا پاکستان کشمیریوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے، قوم نے دنیا کو آر ایس ایس کے نازی نظریے سے آگاہ کیا۔ انہوں نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ قوم نے آج جس طرح کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا اس پر مجھے فخر ہے۔مقبوضہ کشمیر کے عوام کو فاشسٹ مودی حکومت کے وحشیانہ اقدامات کا سامنا ہے۔ قوم نے کشمیریوں کو باور کرایا کہ وہ ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ آر ایس ایس کے نازی نظریے سے نہ صرف خطے بلکہ دنیا کو بھی خطرہ ہے۔ قوم نے دنیا کو بھارت میں آر ایس ایس کے نازی نظریے سے بھی آگاہ کیا۔ کشمیریوں پر فسطائی مودی حکومت مسلط ہے۔ فاشسٹ مودی حکومت کا مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کا ایجنڈا ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں کرفیوکے خاتمے کیلئے عالمی دنیا کو کردارادا کرنا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور یواے ای ولی عہد کے درمیان کشمیر کی نازک صورتحال اور پاک بھارتبڑھتی ہوئی کشیدگی پر بات چیت ہوئی۔دونوں رہنماؤں نے کشمیر اور پاک بھارت کشیدہ صورتحال پر رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ یواے ای کے ولی عہد نے کشمیر کی صورتحال پر آگاہ کرنے پر وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال تشویشناک ہے۔ ایل اوسی پر بھارت کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزیاں بڑھ گئی ہیں۔پاکستانی قوم کو یواے ای سمیت اوآئی سی ممالک سے امیدیں وابستہ ہیں۔ مزید برآں وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کو امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں اپنے ایک مضمون میں کہا کہ گزشتہ سال اگست میں وزیراعظم پاکستان منتخب ہونے کے بعد جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن میری اولین ترجیحات میں شامل تھا، مشکل اور کٹھن تاریخ کے باوجود پاکستان اور بھارت دونوں کو غربت، بے روزگاری اورماحولیاتی آلودگی بالخصوص گلشئیروں کے پگھلنے اور ہماری کروڑوں آبادی کیلئے پانیکی کمیابی جیسے یکساں چیلنجوں کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں تجارت اور مسئلہ کشمیر جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،کے تصفیہ کے حل کے ذریعے بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلانا چاہتا تھا پاکستانی قوم نے دنیا کو بھارت پر ہندو بالادستی کے RSS اور BJP کے نظریے کے (نازی انداز میں) غلبے سے جنم لینے والے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ اس سے محض خطے ہی کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو خطرہ ہے۔— Imran Khan (@ImranKhanPTI) August 30, 2019 لہٰذا انتخابات میں کامیابی کے بعد 26 جولائی کو ٹی وی پر اپنی پہلی تقریر میں، میں نے کہا تھا کہ ہمبھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دوقدم آگے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ستمبر 2018ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات طے کی گئی تاہم بھارت نے اس کو منسوخ کرا دیا۔ اسی ستمبر میں، میں نے وزیراعظم نریندرا مودی کے نام اپنے مکتوب میں مذاکرات اور امن کی ضرورت پر زوردیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بدقستمی سے مذاکرات کے آغاز کیلئے میری تمام کوششوں کو بھارت نے رد کر دیا۔عمران خان نے کہا کہ پہلے میرا خیال تھا کہ نریندرا مودی کا سخت گیر مؤقف اور پاکستان کے خلاف بیانیہ کا مقصد بھارتی ووٹروں میں قوم پرستی کے جذبات کو ابھار کر مئی 2019ء میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا تھا۔  وزیراعظم نے کہا کہ 14 فروری کو بھارتی انتخابات سے چند ماہ قبل ایک نوجوان کشمیری نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے خلاف خود کش حملہ کیا تو بھارتی حکومت نے فوری طور پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا دیا، ہم نے ثبوت مانگا لیکن نریندرا مودی نے سرحد پار پاکستان میں بھارتی فضائیہ کے لڑاکا طیارے بھیج دیئے جس کے جواب میں ہماری فضائیہ نے ایک بھارتی طیارہ مار گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے یہ بتا دیا کہ اپنا دفاع کرنا بخوبی جانتے ہیں لیکن کسی ایسے ٹارگٹ کو نشانہ نہیں بنایا جس سے جانی نقصان ہوتا، میں نے اس بات کے اظہار کیلئے دانستہ فیصلہ کیا کہ پاکستان دو جوہری ریاستوں کے درمیان تصادم میں اضافہ کا ارادہ نہیں رکھتا، ہم نے کسی پیشگی شرط کے بغیر گرفتار بھارتیپائلٹ واپس کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ 23 مئی کو نریندرا مودی کے دوبارہ انتخاب کے بعد میں نے انہیں مبارکباد دی اور امید ظاہر کی کہ ہم جنوبی ایشیاء میں امن ترقی اور خوشحالی کیلئے مل کر کام کرسکتے ہیں، جون میں نے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو ایک اور خط بھیجا جس میں امن کیلئے مل کر کام کرنے کیلئے انہیں مذاکرات کی پیشکش کی لیکن ایک بار پھر بھارت نے کوئی جواب نہیں دیا اور ہمیں پتہ چلا کہ جب ہم امن کا رویہ اختیار کئے ہوئے تھے تو دوسری طرف بھارت پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں’’ بلیک لسٹ‘‘ کرانے کیلئے لابی کر رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ نریندرا مودی نے جوہری ہمسائیگی میں امن کی ہماری خواہش کو غلط سمجھا، ہم کسی مخالف حکومت کے خلاف نہیں کھڑے، ہم ’’نیو انڈیا‘‘ کے خلاف کھڑے ہیں جس پر ایسے رہنمائوں اور پارٹی کی حکمرانی ہے جو ہندو بالا دستی کے نظریہ کی پیداوار راشٹریہ سیوک سوامی سنگھ (آر ایس ایس) ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم اور ان کی حکومت کے کئی وزراء بدستور آر ایس ایس کے ارکان ہیں جن کے آبائو اجداد بنیتو میسولینی اور اڈولف ہٹلر کے مداح تھے۔نریندرا مودی نے آر ایس ایس کے دوسرے سپریم لیڈر ایم ایس گولواکر کے بارے میں نہایت محبت اور تعظیم کے ساتھ تحریر کرتے ہوئے انہیں ’’پوجینیا شری گرو جی‘‘ (پوجا کے لائق گرو) قرار دیا۔ مودی کے گرو نے 1939ء میں اپنی کتاب میں نسل اور اس کی ثقافت کو پاک رکھنے کیلئے جرمنی سے یہودیوں کا صفایا کرنے کے بارے میں توصیفی کلمات تحریر کئے اور اسے قومی فخر قرار دیا اور اسے اپنے لئے ہندوستان میں سیکھنے اور استفادہ کرنے کے لئے ایک اچھی مثال بھی قرار دیا۔وزیراعظم نے کہا کہ مجھے یہ امید تھی کہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد نریندرا مودی اپنے اس وطیرہ سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے جو انہوں نے بھارتیریاست گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر اختیار کیا تھا جس میں انہوں نے 2002ء میں مقامی مسلمان اقلیت کی نسل کشی کے ذریعے عالمی بدنامی مول لی اور اسی وجہ بین الاقوامی مذہبی آزادیوں کے ایکٹ کے تحت امریکہ کی جانب سے مودی کو ویزہ دینے سے انکار کر دیا گیا، اس فہرست میں سلابودان میلازوچ کے قریبی ساتھی بھی شامل تھے۔وزیراعظم نے کہا کہ نریندرا مودی کی پہلی مدت انتہاء پسند ہندووں کے ہجوموں کی جانب سے مسلمانوں، مسیحیوں اور دلتوں پر منظم حملوں اورقتل عام سے عبارت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہم نے نہتے کشمیریوں کے خلاف ریا ستی تشدد میں اضافہ دیکھا ہے، مقبوضہ جموں وکشمیر میں چھرے دار بندوقوں کو متعارف کرا دیا گیا جس کے ذریعے بھارتی مظالم کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والے کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اب تک پیلٹ گنز کے ذریعے سینکڑوں کشمیری بصارت سے محروم ہو چکے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ 5 اگست کو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ مودی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے ذریعے مقبوضہ جموں وکشمیر کی حیثیت کو تبدیل کر دیا، یہ اقدام نہ صرف بھارت کے آئین بلکہ کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پانے والے شملہ سمجھوتہ کے منافی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ نریندرا مودی کے ’’نئے بھارت‘‘ نے کشمیر میں فوجی کرفیوکے نفاذ، آبادی کو محبوس رکھنے، گھروں کو فون، انٹرنیٹ اور ٹی وی کنکشن کی فراہمی بند کرنے اور انہیں دنیا اور اپنے عزیز و اقارب کے بارے میں معلومات کے حصول سے محروم رکھنے کا راستہ اختیار کیا ہے، محاصرے کے بعد اب تک سینکٹروں کشمیریوں کو گرفتارکر لیا گیا ہے اور انہیں بھارت کی مختلف جیلوں میں پھینکا جا رہا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ کرفیوکے خاتمہ کے بعد مقبوضہ کشمیر میں خون کی ہولی کا خدشہ ہے، اس وقت بھی کرفیو کے خلاف ورزی کرنے والے کیشمیریوں کو فائرنگکرکے قتل کیا جا رہا ہے۔  وزیراعظم نے کہا کہ اگر دنیا نے کشمیر اور کشمیری عوام پر بھارتی یلغار کو روکنے کیلئے کچھ نہیں کیا تو پوری دنیا پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اس سے جوہری ہتھیاررکھنے والے دو ریاستیں براہ راست فوجی محاذ آرائی کے قریب ہو جائیں گے۔وزیراعظم نے نشاندہی کی کہ بھارتی وزیر دفاع نے ڈھکے چھپے الفاظ میں پاکستان کو جوہری حملہ کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی بھارتی پالیسی‘‘ کا مستقبل حالات پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے دیگر رہنمائوں کی جانب سے بھی اسی طرح کے بیانات وقفہ وقفہ سے جاری ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کے بھارتی دعوئوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔عمران خان نے کہا کہ جنوبی ایشیاء پر جوہری خطرات کے منڈلاتے ہوئے سائے میں ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ پاکستان اور بھارت کو کشمیر، مختلف تزویراتی امور اور تجارت پر مذاکرات کے آغاز کیلئے ایک کے فائدے اور دوسرے کے نقصان کی سوچ سے آگے بڑھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر پر مذاکراتمیں تمام فریقوں خصوصی طور پر کشمیریوں کی شرکت ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے وعدوں کے مطابق کشمیری عوام کے حق خودارادیت کیلئے پاکستاننے پہلے سے ہی کئی آپشنز تیارکئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت اور مکالمے کے ذریعے فریقین کشمیری عوام کے کئی عشروں کے مصائب کو دور کرنے اور خطہ میں مستحکم و منصفانہ امن کی جانب پیش قدمی کے لئے موزوں حل کی طرف پہنچ سکتے ہیں لیکن بات چیت اسی وقت شروع ہو سکتی ہے جببھارت کشمیر کے ناجائز الحاق کا فیصلہ واپس لے، کرفیو اور لاک ڈائون کا خاتمہ کیا جائے اور اپنی افواج کو بیرکوں میں واپس بھیجے۔وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری تجارت اور کاروباری مفادات سے ماورا ہو کر سوچے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ عظیم دوئم میونخ میں مصالحت خواہی کی بنیاد پر ہوئی تھی، دنیا پر اسی قسم کا خطرہ دوبارہ منڈلا رہا ہے لیکن اس بار یہ خطرہ جوہری سائے تلے ہے۔

زیادہ پڑھی جانےوالی خبریں