چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کسی رکن پر تاحیات پابندی لگانا بہت بڑی سزا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے بدھ 11 مئی کو 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی رکن پر تاحیات پابندی لگانا بہت بڑی سزا ہے، آرٹیکل 62(1) ایف کے اطلاق کی بھی بڑی شرائط ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انحراف ایک بہت بڑا ناسور ہے، ملک کی ترقی کے لئے مستحکم حکومت کی ضرورت ہے، 1970 سے جو میوزیکل چیئر چل رہی ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ بھی کہا کہ ہزاروں مقدمات عدالتوں کے سامنے زیرالتوا ہیں، ہر معاملہ عدالت میں آرہا ہے، کیا ہم یہاں جماعتوں کے اندونی اور آپس کے معاملات حل کریں؟۔ سماعت کے دوران مسلم لیگ (ق) کے وکیل اظہر صدیق نے عدالت کے روبرو کہا کہ میری نظر میں قانون غیر موثر ہے، ابھی بھی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے، قانون کے مطابق الیکشن ہوں گے تو یہ چیزیں ختم ہو جائیں گی۔ ایک موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ انحراف بذات حود ایک آئینی جرم ہے، انحراف کی ایک سزا ڈی سیٹ ہونا ہے، ڈی سیٹ کے ساتھ دوسری سزا کیا ہو سکتی ہے،آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی معیاد کا ذکر نہیں، سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کو کسی دوسرے آرٹیکل کے ساتھ ملا سکتے ہیں؟۔ بینچ میں شامل جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ منحرف کو نااہلی کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا، کیا نااہلی کے لیے ٹرائل ہوگا، اگر رشوت کا الزام لگایا ہے تو اس کے شواہد کیا ہوں گے۔ کیس کی مزید سماعت 16 مئی کو ہوگی۔