گلگت/کوئٹہ: پاکستان میں کورونا وائرس کا ایک اور کیس سامنے آنے کے بعد ملک میں مجموعی طور پر اس وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 5 ہوگئی۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نئی مریضہ کی شناخت گلگت بلتستان کی 45 سالہ رہائشی کے طور پر ہوئی جنہیں ہفتے کے روز گلگت ڈسٹرک ہسپتال سے اسلام آباد کے قومی ادارہ صحت بھیجا گیا تھا۔ https://twitter.com/zfrmrza/status/1234636101802958848 مریضہ کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد انہیں ہسپتال میں قائم آئیسولیشن وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔تحریر جاری ہےاس طرح ملک میں کورونا وائرس سے اب تک متاثر ہونے والے افراد میں سے 3 کا تعلق گلگت جبکہ بقیہ 2 کا کراچی سے ہے۔صحت حکام کے مطابق گلگت بلتستان کے محکمہ صحت کے پاس وائرس کا ٹیسٹ کرنے کی سہولیات میسر نہیں اس لیے کورونا وائرس کے 12 مشتبہ مریضوں کے نمونے تشخیص کے لیے قومی ادارہ صحت اسلام آباد بھجوائے گئے ہیں۔ قبل ازیں پیر کی شام حکومت گلگت بلتستان نے وائرس کا پھیلاؤ روکنے کی پیشگی احتیاطی تدبیر کے طور پر سرکاری و نجی تعلیمی ادارے 7 مارچ تک بند رکھنے کا اعلان کیا تھا۔دریں اثنا افغانستان میں کورونا وائرس کا کیس سامنے آنے پر بلوچستان کے علاقے چمن میں پاک افغان سرحد 7 روز کے لیے بند کردی گئی۔جس کے بعد سرحد پر تمام تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں معطل ہونے کے ساتھ ساتھ امیگریشن، کسٹم، ٹرانسپورٹ اور دیگر متعلہ دفاتر بند کردیے گئے۔تاہم سرحدی گزرگاہ کی بندش سے ناواقف افراد کی بڑی تعداد پیر کے روز سرحد کے دونوں اطراف چمن اور ویش میں جمع ہوئی لیکن کسی کو بھی بابِ دوستی کے قریب نہیں آنے دیا گیا۔ سرحد پر پہنچنے والے افراد میں خواتین اور بچوں سمیت افغان مریض بھی شامل تھے جو پاکستانی ہسپتالوں میں علاج کے لیے سرحد پار کرنا چاہتے لیکن انہیں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔اس ضمن میں ایک سیکیورٹی عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ’ہم وزارت داخلہ کی جانب سے افغانستان کے ساتھ موجود سرحد کی بندش کے احکامات پر سختی سے عمل پیرا ہیں اور کسی کو بھی پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومتِ افغانستان کو بھی آگاہ کردیا گیا تھا کہ ’9 مارچ تک پاک افغان سرحد پر کوئی سرگرمی نہیں ہوگی‘۔ سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ چمن بارڈ کے ساتھ ساتھ دیگر داخلی مقامات پر بھی سیکیورٹی فورسز تعینات کردی گئی ہے۔محکمہ صحت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ صوبائی ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ڈاکٹڑز اور عہدیدار سرحد پر موجود ہیں جنہوں نے گزشتہ ہفتے سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہونے والے تقریباً 10 ہزار افراد کا کورونا وائرس کے لیے اسکرین ٹیسٹ کیا تاہم ’کوئی بھی متاثر نہیں پایا گیا‘۔صوبائی ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے حکام نے کہا کہ چمن اور قلعہ عبداللہ میں صورتحال سے نمٹنے کے لیے آئیسولیشن سینٹرز قائم کردیے گئے ہیں۔ کورونا وائرس ہے کیا؟ کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔ کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔