اسلام آباد: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری ہے جس میں حکومت انتخابی اصلاحات، الیکٹرانک ووٹنگ مشین، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور کلبھوشن یادیو سے متعلق بل سمیت 27 بلز منظور کرانے کی کوشش کرے گی جب کہ اپوزیشن بھی ڈٹ کر مقابلہ کرے گی۔ اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ ایجنڈا شروع ہوتے ہی اپوزیشن نے شور شرابہ کیا اور نو نو کے نعرے لگائے۔ انتخابی اصلاحات بل موخر بابر اعوان نے انتخابی اصلاحات بل منظوری کیلئے پیش کر دیا تاہم انہوں نے اس پر رائے شماری کرانے کی بجائے کہا کہ انتخابی اصلاحات بل موخر کیا جائے اور اپوزیشن کو اس پر بات کی اجازت دی جائے۔ اس کے بعد اپوزیشن رہنماؤں نے اجلاس میں اظہار خیال شروع کیا۔ شہباز شریف اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر صاحب اگر آپ اپنی پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفی دیں تو آپ کو کندھوں پر بٹھائیں گے، حکومت اور اس کے اتحادی آج اس ایوان سے جن قوانین کو منظور کرانا چاہتے ہیں، اس کا سب سے بڑا بوجھ اسپیکر کے کندھوں پر ہے، حکومت ای وی ایم شیطانی مشین سے اقتدار کو طول دینا چاہتی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پارلیمنٹ شفاف انتخابی اصلاحات لانا چاہتی ہے، ہم کالا قانون نہیں لانا چاہتے بلکہ ماضی کی کالک کو دھونا چاہتے ہیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشین شیطانی مشین نہیں ہے بلکہ یہ ماضی کے شیطانی منصوبوں کو ختم کرنے کیلئے لائی جا رہی ہے۔ پی پی رکن کی اسپیکر سے تلخ کلامی بلاول بھٹو کو مائیک نہ دینے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا اور مائیک دینے کا مطالبہ کیا۔ پی پی رکن قادر مندوخیل کی اسپیکر سے تلخ کلامی ہوئی اور اسپیکر ڈائس پر نامناسب گفتگو کی۔ اسد قیصر غصے میں آگئے اور بولے کہ آپ تمیز سے رہیں ورنہ میں باہر نکلوادوں گا، آپ کی کیا اوقات ہے، میں بلاول کو موقع دے رہا تھا پھر یہ بدتمیزی کیوں کی، میں آپ کو معطل کردوں گا۔ اسپیکر اسد قیصر نے بلاول بھٹو کو مائیک دیتے ہوئے کہا کہ بلاول صاحب آپ کے رکن کا رویہ ناقابل برداشت ہے۔ اسپیکر ڈائس کے سامنے سارجنٹ ایٹ آرمز نے سیکیورٹی سنبھال لی۔ بلاول بھٹو بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو نہیں مانتے، ہم الیکشن کمیشن کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، الیکشن کمیشن کے تحفظات ہمارے تحفظات ہیں، حکومت انتخابات کو متنازع بنانا چاہ رہی ہے، حکومت کی قانون سازی کو چیلنج کرینگے اور عدالت میں شکست دینگے، اگر آپ ہم سے مشاورت کرلیتے تو آئندہ آنے والا الیکشن متنازعہ نہ ہوتا، اگر آپ نے بل منظور کروا لیا تو ہم آج سے ہی اگلے الیکشن کے نتائج نہیں مانتے، ہم کلبھوشن یادیو کو ریلیف دینے پر آپ کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اسعد محمود جے یو آئی (ف) کے اسعد محمود نے کہا کہ ملک میں افراتفری اور ہنگاموں کی بنیاد ڈالی جارہی ہے ، اگر یکطرفہ قانون سازی ہوتی ہے اور اس بنیاد پر افراتفری ہوگی تو اس کی ذمہ داری آپ پر اور حکومت و سپورٹرز پر ہوگی ، انتخابی نتائج پر ہمیشہ دنیا میں سوال اٹھتے ہیں، ہم متحمل نہیں ہوسکتے کہ جیسے پہلے ملک دو لخت ہوا ، پھر افراتفری ہو ۔ وزیراعظم کی آمد اسی دوران وزیراعظم عمران خان ایوان میں آئے۔ انہوں نے ہاتھ میں تسبیح پکڑی ہوئی تھی۔ حکومتی اراکین نے ڈیسک بجاکر ان کا استقبال کیا۔ انتخابی بل میں ترمیم ترمیم مسترد محسن داوڑ نے کہا کہ افسوس کی بات ہے آج علی وزیر ایوان میں نہیں ہیں اور وزیرستان کی نمائندگی نہیں ہو رہی۔ محسن داوڑ نے انتخابی ترمیمی بل دوسری ترمیم میں اپنی ترمیم پیش کی جس کی بابر اعوان نے مخالفت کردی۔ مخالف جو بھی کرے گا میں اس سے بہتر کروں گا اجلاس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے میڈیا سے مختصر گفتگو کی۔ صحافی نے سوال کیا کہ اپوزیشن کہتی ہے آج آپکو سرپرائز ملے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے جواب دیا کہ جب کھلاڑی میدان میں اترتا ہے وہ ہر چیز کے لیے تیار ہوتا ہے، مخالف جو بھی کرے گا میں اس سے بہتر کروں گا۔ ہمارے پاس عددی تعداد پوری ہے شہباز شریف نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہمارے پاس اپنی تعداد پوری ہے، مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن جواب دے گی، جو اللہ کو منظور ہو گا وہی ہو گا انشااللہ۔ اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی مشاورت مکمل کرکے مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ حکومت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سمیت 27 بلز کو ایک ساتھ منظور کرانے کی پلاننگ طے ہے، اپوزیشن نے بھی بھرپور حاضری کے ساتھ حکومتی بزنس کو ڈسٹرب کرنے کا پلان مرتب کرلیا۔ حکومت کو 228 ارکان جب کہ متحدہ اپوزیشن کو 212 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو ق لیگ، ایم کیو ایم، بی اے پی اور شیخ رشید سمیت 180 ارکان کی حمایت حاصل ہے، اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم ایم اے سمیت 161 ارکان کی حمایت حاصل ہے، سینیٹ ارکان میں اپوزیشن اتحاد کو 51 جب کہ حکومتی اتحاد کو 48 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر ڈینگی کا شکار ہیں اور شدید علالت کے باعث حاضر نہ ہوئے، مسلم لیگ ن کی شائستہ پرویز ملک شوہر کی رحلت کے باعث عدت میں تھیں تاہم انہوں نے اجلاس میں شرکت کی ہے۔ جیل میں قید آزاد رکن علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے کی وجہ سے حاضر نہ ہوئے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اپنے بھائی کے انتقال کے باوجود اجلاس میں شریک ہوئے۔ اپوزیشن اجلاس میں 180 ارکان کی شرکت مشترکہ اجلاس سے قبل حکومت اور اپوزیشن کی الگ الگ مشاورت ہوئی، حکومت کی طرف سے تمام ارکان کو اپنی حاضری یقینی بنانے کا پیغام دے دیا گیا اور 16 اضافی ووٹوں کے ساتھ آج میدان میں اترنے کی توقع ظاہر کی گئی۔ ادھر مشترکہ اپوزیشن کے اجلاس میں 180 ارکان نے شرکت کی۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جتنی مرضی کوشش کرلے، ہم قانون سازی کرکے کامیاب ہوں گے، دوسری جانب اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ آج ایک بار پھر اپوزیشن کی جانب سے بھی سرپرائز ملے گا، اپوزیشن کو امید ہے کہ یوسف رضا گیلانی جس طرح سینیٹ الیکشن جیتے ویسے ہی ایک دھچکا حکومت کو اور لگنے والا ہے۔ حکومت نے بھی اپوزیشن کے متوقع غیر حاضر ارکان پر نظریں جمالیں۔ حکومتی ذرائع نے مزید کہا کہ 16 ووٹوں کا بڑا مارجن حکومت کے پاس ہے، ہم میدان میں جیتنے کے لیے اتر رہے ہیں۔ اس سے قبل 11 نومبر کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا تھا تاہم حکومت کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے تحفظات پر اجلاس ملتوی کردیا گیا تھا۔