کراچی: سابق قومی کپتان عامر سہیل نے دعویٰ کیا ہے کہ وسیم اکرم کبھی پاکستان کرکٹ سے مخلص نہیں رہے جنہوں نے یہ بات یقینی بنائی کہ عالمی کپ 92ء کے بعد پاکستان کوئی میگاایونٹ نہ جیت سکے ،دو ہزار تین تک ہر بار ورلڈ کپ سے قبل آل راؤنڈر کو کپتانی سنبھالنے کیلئے پروموٹ کیا گیا ،اس تمام ڈرامے کے پیچھے کچھ وجوہات تھیں جن کی باقاعدہ تحقیقات کی ضرورت ہے ،اخلاص سے کام لیتے تو کم از کم تین مرتبہ پاکستان ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب ہو جاتا۔تفصیلات کے مطابق پاکستان کرکٹ میں جاری الزامات کی سیاست میں سابق قومی کپتان عامر سہیل بھی کود پڑے ہیں جنہوں نے ایک نجی چینل سے گفتگو کے دوران انکشاف کیا ہے کہ سابق قومی کپتان اور اپنے وقت کے بہترین فاسٹ بالر وسیم اکرم کبھی پاکستان کرکٹ سے مخلص نہیں رہے اور انہوں نے ہمیشہ یہ بات یقینی بنانے کی کوشش جاری رکھی کہ عالمی کپ 92ء کے بعد پاکستانی ٹیم کبھی کوئی ورلڈ کپ نہ جیت سکے اور اس کیلئے دو ہزار تین تک لگاتار یہ مہم چلائی جاتی رہی کہ ہر عالمی کپ سے قبل وسیم اکرم کو قومی ٹیم کی قیادت کیلئے ابھارا گیا اور اس کپتان کو سائیڈ لائن کیا گیا جو گرین شرٹس کو اس مقام تک لانے میں کامیاب ہوا تھا عامر سہیل کا کہنا تھا کہ یہ بڑی سادہ سی بات ہے کہ اگر عالمی کپ 92ء کو ایک جانب کرکے ورلڈ کپ 1996ء کی بات کی جائے تو اس سے ایک سال قبل تک رمیز راجہ قومی ٹیم کی کپتانی کر رہے تھے جبکہ اس سے قبل قیادت کا منصب سلیم ملک کے پاس تھا جو کامیابی کے ساتھ پاکستان کی کپتانی کر رہے تھے اور اگر انہیں ایک سال مزید قیادت کرنے دی جاتی تو وسیم اکرم کو کپتان بنانے کی نوبت ہی نہیں آتی لیکن عالمی کپ سے قبل قیادت کے امیدوار تبدیل ہونے لگے ۔عامر سہیل کا کہنا تھا کہ اگر عالمی کپ دو ہزار تین سے قبل جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ہر بار قومی ٹیم کا کپتان اپنے منصب سے ہٹا دیا گیا اور وسیم اکرم اپنا کردار ادا کرنے سامنے آگئے اور اب وہ عالمی کپ 92ء کو اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں پاکستان نے پہلی اور آخری بار میگا ایونٹ کی ٹرافی پر قبضہ یقینی بنایا لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے عالمی کپ 92ء کے بعد کبھی پاکستان کو ورلڈ کپ نہیں جیتنے دیا اور عمران خان ان کے اتنے شکرگزار ہوئے کہ انہیں صدارتی ایوارڈ سے بھی نواز دیا حالانکہ اگر وہ احتساب کی بات کرتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے وسیم اکرم کو پی سی بی سے الگ کرنا چاہئے ۔سابق قومی کپتان کا کہنا تھا کہ اگر وسیم اکرم پاکستان کرکٹ سے مخلص ہوتے تو بڑی آسانی کے ساتھ نہ صرف ورلڈ کپ 96ء بلکہ عالمی کپ 99ء کے بعد پاکستانی ٹیم دو ہزار تین میں بھی میگا ایونٹ جیت سکتی تھی لیکن یہ تمام تر ڈرامہ کسی وجہ سے رچایا گیا جس کی باقاعدہ تحقیقات ہونی چاہئے تاکہ اس حوالے سے اصل کرداروں کو سامنے لایا جا سکے ۔عامر سہیل نے حالیہ عرصے میں بدعنوانی کے سابقہ کارناموں کے حوالے سے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے واضح کیا کہ انہیں عالمی کپ 96ئکے کوارٹر فائنل سے قبل دوستوں نے آگاہ کردیا تھا کہ وسیم اکرم اس میچ میں نہیں کھیلیں گے اور بالکل ایسا ہی ہوا کہ میچ سے پانچ منٹ پہلے انہیں آگاہ کیا گیا کہ وسیم اکرم انجری کا شکار ہیں لہٰذا کپتانی انہیں کرنی ہوگی حالانکہ منیجر انتخاب عالم نے انہیں بتایا تھا کہ وسیم اکرم کوارٹر فائنل کیلئے دستیاب ہیں۔اگرچہ اس حوالے سے وسیم اکرم کا موقف سامنے نہیں آیا لیکن عامر سہیل کا کہنا تھا کہ میچ فکسنگ کی بنیاد پر پابندی کے شکار فاسٹ بالر عطائالرحمن کو کمزور ہونے کی وجہ سے سزا ملی اور جن کو واقعی اس معاملے میں پکڑا جانا چاہئے تھا وہ آسانی سے نکل گئے ۔ سابق قومی کپتان کا کہنا تھا کہ میچ فکسرز کے مختلف بورڈز میں بھی رابطے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی کے معاملات کو تیس سال گزر جانے کے باوجود پی سی بی جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کو ان کی سرزمین پر ہرانے کی پلاننگ نہیں کرسکا جس پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ماضی کے قصے بیان کرنے کے بجائے ان تمام پہلوؤں کی نئے سرے سے جانچ پڑتال کی جائے تاکہ یہ سلسلہ ختم ہو سکے جس نے پاکستان کرکٹ کو ٹھکانے لگا دیا ہے ۔