** عالمی شہرت یافتہ معروف ٹی وی میزبان، ہدایت کار، صدا کار اور اداکار ضیا محی الدین کا انتقال ہوگیا ہے۔ خاندانی ذرائع نے خبر کی تصدیق کردی ہے۔** ضیا محی الدین کی عمر 91 برس تھی۔ وہ کئی روز سے علیل اور کراچی کے اسپتال میں زیر علاج تھے۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ضیا محی الدین کا انتقال آج بروز پیر 13 فروری کو علی الصبح ہوا۔ نجی اسپتال میں سرجری کے دوران اندرونی شریانی پھٹنے سے ان کی موت واقع ہوئی۔ اہل خانہ کے مطابق ضیا صاحب کی نماز جنازہ آج بعد نماز ظہر ڈیفنس فیس 4 امام بارگاہ یثرب میں ادا کی جائے گی، جب کہ تدفین ڈیفنس فیز 8 کے قبرستان میں کی جائے گی۔ ضیا محی الدین کو 1962 میں فلم لارنس آف عریبیہ میں کام کرنے کا موقع ملا،انھوں نے فلم لارنس آف عریبیہ میں ایک یادگار کردار ادا کیا۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ مرحوم معین اختر کو پردے پر لانے والے بھی ضیا محی الدین صاحب ہی تھے۔ ضیا محی الدین نے’ضیا محی الدین شو’ کے نام سے ایک اسٹیج پروگرام کی میزبانی بھی کی۔ حکومت کی جانب سے انہیں فنی خدمات پر ن سال 2012 میں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ ضیاء محی الدین برطانوی ہند میں لائلپور(حالیہ فیصل آباد، پاکستان) کے شہر میں 20 جون1931ء کو پیدا ہوئے، ان کے والد خادم محی الدین تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے اور انہیں پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد کے مصنف اور مکالمہ نگار ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ ضیا محی الدین نے 1949ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا اور مزید تعلیم کے حصول کے لیے پہلے آسٹریلیا اور پھر انگلستان چلے گئے ضیا محی الدین نے سال 1950 میں رائل اکیڈمی آف تھیٹر اینڈ آرٹس سے وابستگی اختیار کی اور صداکاری اور اداکاری کا سلسلہ شروع کیا۔ 1956 میں وہ پاکستان واپس لوٹے لیکن جلد ہی ایک سکالر شپ پر انگلستان واپس چلے گئے جہاں انھوں نے ڈائریکشن کی تربیت حاصل کی۔ فنی زندگی پر ایک نظر 1960ء میں میں جب ای ایم فوسٹر کے مشہور ناول اے پیسج ٹو انڈیا کو اسٹیج پر پیش کیا گیا تو ضیا محی الدین نے اس میں ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کرکے شائقین کی توجہ حاصل کر لی۔ سال 1962ء میں انہیں فلم لارنس آف عربیا میں کام کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے اس فلم میں بھی ایک یادگار کردار ادا کیا۔ بعد ازاں انہوں نے تھیٹر کے کئی ڈراموں اور ہالی وڈ کی کئی فلموں میں کردار ادا کیے۔ 1970ء میں ضیا محی الدین پاکستان آئے جہاں انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ضیا محی الدین شو کے نام سے ایک اسٹیج پروگرام کی میزبانی کی۔ اس اسٹیج پروگرام نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ ضیا محی الدین نے ایک پاکستانی ’’مجرم کون‘‘ میں بھی مرکزی کردار ادا کیا لیکن وہ اس میدان میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران انہیں پی آئی ائے آرٹس اکیڈمی کا ڈائرکٹر مقرر کیا گیا۔ اسی دوران انہوں نے نامور رقاصہ ناہید صدیقی سے شادی کر لی۔ ضیا محی الدین نے پاکستان ٹیلی وژن سے جو پروگرام پیش کیے ان میں پائل، چچا چھکن، ضیا کے ساتھ اور جو جانے وہ جیتے کے نام سر فہرست ہیں۔ وہ اپنی خوب صورت آواز میں اردو ادب کے فن پارے اپنی خوب صورت آواز میں پیش کرنے میں بھی اختصاص رکھتے ہیں 2004ء میں انہیں کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کا ڈائرکٹر مقرر کیا گیا۔ ضیا محی الدین ان چند پاکستانیوں میں شامل ہیں جنھوں نے پاکستان سے باہر جا کر بھی تھیٹر اور فلموں میں کام کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پچھلے کئی برس سے ناپا میں ہم سال میں ایک بار دنیا کے عظیم ڈراموں میں سے کوئی نہ کوئی ایک پیش کرتے ہیں۔ جب ہم عظیم ڈرامہ نویسوں کا ذکر کرتے ہیں تو سب سے پہلے شیکسپیئر ہیں۔‘ ضیا محی الدین کو ہم نے ٹی وی پر کئی پروگرامز کی میزبانی کرتے دیکھا اور کئی دہائیوں سے محرم کے دوران مرثیے سناتے سنا ہے۔ مشتاق یوسفی اردو ادب میں طنزو مزاح کے آقا مشتاق یوسفی نے ضیاٗ محی الدین کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ضیا اگر کسی مردہ سے مردہ ادیب کی تحریر پڑھ لے، تو وہ زندہ ہوجاتا ہے۔ یہ واحد ادبی شخصیت ہیں جن کے پڑھنے اور بولنے کے ڈھنگ کو عالمی شہرت نصیب ہوئی ، آواز کی کھنک ،گنگا جمنی لہجہ ،آواز کا اتار چڑھاو،شعر پڑھنے کا قدیمی و جدید انداز ایسا ہے کہ علم و فکر سے مزین انسان عش عش کر اٹھتا ہے ،دل کرتا ہے وہ پڑھتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ضیا محی الدین نے اردو ادب کی توجیح و تشریح میں اہم کردار ادا کیا۔ ضیا محی الدین کی آواز ہی ان کی اصل شناخت ہے ،خوبصورت آواز اور الہامی لہجہ کی وجہ سے انہوں نے وہ مقام پیدا کیا ہے جو آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوسکا ۔اردو ادب کے لازوال فن پاروں کو اسٹیج پر اس انداز و لہجے میں پیش کیا کہ دنیا کو اردو زبان سے عشق ہو گیا ۔ ضیامحی الدین کو انگریزی اور اردو زبان کا شہزادہ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اردو زبان کے نایاب شاعر و فلاسفر مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کے خطوط جس انداز میں پڑھے، اس سے بھی انہیں بہت شہرت ملی۔ وہ ایسے باکمال فنکار ہیں، جنہوں نے فن کی کئی جہتیں متعارف کرائیں ان سب کے علاوہ وہ اعلیٰ درجے کے مرثیہ خواں بھی ہیں، اس شعبے میں بھی انہیں منفرد مقام حاصل ہے۔ ان کے انگریزی ٹی وی ڈراموں میں ’‘ ڈینجرمین، دی ایونجرز مین، ان اے سوٹ کیس، ڈیٹیکٹو ، ڈیتھ آف اے پرنسس ، دی جیول پرائڈ’’ ان دی کرائون اور فیملی سر فہرست ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ سر سے پاوں تک صرف ایک تخلیقی فنکار تھے، ساتھ ساتھ وہ انتہائی شائستہ اور مہذب انسان بھی تھے، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں انہیں ایک قابل احترام شخصیت سمجھا جاتا ہے