اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قومی اسمبلی کا اجلاس بغیر کارروائی کے 28 مارچ بروز پیر تک ملتوی کردیا۔ واضح رہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی کا اہم اجلاس آج بروز جمعہ 25 مارچ کو بلایا گیا تھا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیرِصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس دن 11 بج کر 22 منٹ پر شروع ہوا۔ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا، جس کے بعد اسمبلی ہاؤس میں قومی ترانہ پڑھا گیا۔ اسمبلی اجلاس میں قومی ترانہ ختم ہوتے ہی پھچلی نشستوں پر بیٹھے افراد کی جانب سے نعرے لگائے گئے۔ اسمبلی سیشن کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے مرحوم اراکین کے نام پڑھے، جب کہ جھل مگسی اور دہشت گردی میں جاں بحق افراد کیلئے بھی فاتحہ خوانی کی گئی۔ اس موقع پر اسمبلی سیشن میں اسپیکر نے کہا کہ یہ روایت ہے کہ کوئی ممبر وفات پا جاتا ہے تو پہلا اجلاس بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کیا جاسکتا ہے، آج کا اجلاس ہم بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کرتے ہیں۔ اجلاس ملتوی کے اعلان پر اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اجلاس کو پیر 28 مارچ تک ملتوی کیا گیا ہے۔ اسپیکر نے یہ بھی کہا کہ میں قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد سے متعلق جو بھی کارروائی ہوگی وہ قانون اور آئین کے مطابق کروں گا۔ شہباز شریف نے مائیک سنبھالا قومی اسمبلی میں فاتحہ خوانی کے بعد قائد حزب اختلاف نے فوراً بات کرنے کیلئے مائیک سنبھالا مگر اسی وقت اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ قبل ازیں جمعرات 24 مارچ کو قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے اجلاس کا 15 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا، جس میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد شامل ہے۔ ایجنڈے میں اپوزیشن کے 147 ارکان کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کو شامل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پارلیمانی روایات کے مطابق کسی بھی رکن اسمبلی کے انتقال کے بعد طلب کیے گئے اجلاس کا پہلا روز فاتحہ کے بعد مزید کارروائی کے ملتوی کر دیا جاتا ہے تاہم یہ پارلیمانی روایات ہیں رولز میں ایسا کرنا ضروری نہیں ہے۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی خیال زمان فروری میں انتقال کر گئے تھے۔ اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد پر اجلاس کے پہلے روز بحث کروائیں۔ اپوزیشن کی جانب سے اسپیکر قومی اسمبلی پر الزام عائد کر رکھا ہے کہ اسد قیصر نے 14 روز کے اندر اجلاس نہ بلا کر آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن اور تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں 8 مارچ کو جمع کرائی تھی۔ اسمبلی رولز کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس ریکوزیشن جمع ہونے کے بعد 14 اندر بلانے کا پابند ہے۔ تاہم قومی اسمبلی میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس کے لیے قومی اسمبلی کی عمارت میں مرمتی کام کی وجہ سے جگہ نہ ہونے کے باعث اجلاس 22 مارچ کے بجائے 25 مارچ کو طلب کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے ارکان قومی اسمبلی کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے تمام ارکان کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کر دی ہے۔ دوسری جانب حکومت نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں نمبروں کی جنگ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے 172 ووٹ درکار ہیں۔ متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے اتحادی جماعتوں اور ناراض حکومتی ممبران اسمبلی کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ اپوزیشن حکومت یا اتحادی جماعتوں کے 10 ارکان کے ووٹ لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو تحریک کامیاب ہو جائے گی۔ قومی اسمبلی میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو اتحادیوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان اراکین میں پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین، ایم کیو ایم کے 7، بی اے پی کے 5، مسلم لیگ ق کے بھی 5 اراکین، جی ڈی اے کے 3 اور عوامی مسلم لیگ کے ایک رکن حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ دوسری جانب حزب اختلاف کے کل اراکین کی تعداد 162 ہے۔ ان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 اراکین، متحدہ مجلس عمل کے 15، بی این پی کے 4 جب کہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے علاوہ 2 آزاد اراکین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔