انسداد دہشت گردی عدالت میں لیاری گینگسٹرعزیر بلوچ کی طبی سہولیات کی درخواست منظور کرلی گئی۔ انسداد دہشت گردی عدالت میں عزیربلوچ کے وکیل عابد زمان ایڈووکیٹ نے آنکھوں کے علاج کے لئے درخواست دائرکی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا کہ عذیربلوچ کی بصارت بہت زیادہ کمزور ہوگئی ہے اور اس کمزوری اور درد کی وجہ سے انفیکشن ہونے کا خدشہ ہے۔عابد زمان نے درخواست کی کہ عدالت عذیربلوچ کی آنکھوں کاعلاج کرانے کا حکم دیا جائے۔ عدالت نے جیل سپریٹنڈنٹ سینڑل کوعذیر بلوچ کی آنکھوں کا علاج کرانے کا حکم دے دیا اورآئندہ سماعت پرملزم کی طبی سہولیات کی رپورٹ بھی پیش کرنے کا کہا ہے۔عدالت نےجیل سپریٹنڈنٹ سے7اکتوبرکوملزم عذیربلوچ کی میڈیکل رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔ عزیربلوچ کا اقبالی بیان لياری گينگ وار کے سرکردہ کردار عزيربلوچ نے اپنے اقبالی بيان ميں کہا ہے کہ سابق صدرآصف زرداری کےکہنےپراپنے گروہ کے 15 سے 20 لڑکے بلاول ہاؤس بھیجےجنہوں نے بلاول ہاؤس کے اطراف 30 سے 40 بنگلے اور فلیٹ زبردستی خالی کرائے۔ عزیربلوچ کے اقبالی بیان میں بتایا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی رہنما اویس مظفر کو آصف زرداری کے ليے14 شوگر ملوں پر قبضے میں مدد کی۔ بلاول ہاؤس کے اطراف بنگلےاورفلیٹ زبردستی خالی کروانے کی آصف زرداری نے انتہائی کم قیمت ادا کی۔ عزير بلوچ کے بيان ميں سابق صدرآصف زرداری،اویس مظفر،شرجیل میمن، قادر پٹیل اور پيپلزپارٹی کے ديگر رہنماؤں پرسنگين الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ عزيربلوچ کے اقبالی بيان ميں يہ بھی ہے کہ وہ ایرانی خفیہ ایجنسی کے حاجی ناصر کے ساتھ ایران گیا اور ایرانی خفیہ ایجنسی کے افسران سے ملاقات کی اور کراچی میں قائم حساس اداروں کے دفاتر اور تنصیبات کے نقشے دئیے اور تصاویر دینے کا وعدہ کیا۔ملاقات میں اہم تنصیبات کے داخلی وخارجی راستوں کی نشاندہی کرائی گئی اورسیکیورٹی پر مامور لوگوں کی تعداد، رہائش اور آمدورفت کا بھی بتایا گيا۔عدالت نے عزيربلوچ کے بیان کو رینجرز اہلکاروں کے قتل کیس کاحصہ بنالیا ہے۔ تین ماہ قبل جوڈیشل مجسٹریٹ نےعزیربلوچ کےاقبالی بیان کی نقول اے ٹی سی میں پیش کردی ہیں۔عزیر بلوچ نے بیان دیا کہ سال 2003 میں لیاری گینگ وار میں شمولیت اختیار کی اور سال 2008 ميں جیل میں پیپلزپارٹی رہنما فیصل رضا عابدی اور جیل سپرنٹنڈنٹ نصرت منگن کے کہنے پر پیپلز پارٹی کے قیدیوں کا ذمہ داربنایا گیا۔ عزیربلوچ نے بتایا کہ رحمان ڈکیت کی ہلاکت کے بعد لیاری گینگ وار کی کمان سنبھالی اور پیپلز امن کمیٹی کے نام سے مسلح دہشت گرد گروہ بنایا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ بلوچستان سے اسلحہ منگواتے تھے جس کواغوا برائے تاوان، قتل و غارت گری ،سیاسی جلسوں اور ہڑتالوں کو کامیاب بنانے ميں استعمال کيا جاتا تھا۔ اس کےعلاوہ لیاری میں ذوالفقار مرزا، قادر پٹیل اور سینیٹر یوسف بلوچ سے کہہ کر اپنی مرضی کے پولیس افسران تعينات کرانے کا بھی اعتراف کيا ہے۔ عزير بلوچ نے يہ بھی بتايا کہ پولیس کی مدد سے ارشد پپو، اس کے بھائی اور ساتھی کو اغوا کیا۔ تینوں کے سر تن سے جدا کرکے لیاری کی گلیوں میں فٹ بال کھیلا اور لاشوں کو جلا دیا۔اس واردات کی فوٹيج بنا کر وائرل کی تا کہ دہشت پھيلے۔ استغاثہ نے عزیر بلوچ کی بریت چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ۔ استغاثہ نے موقف دیا کہ ان مقدمات میں گواہوں کے بیانات پر توجہ نہیں دی گئی جبکہ عزیر بلوچ کو سزا دلوانےکیلئےشواہد موجود ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ مقدمات بحال کرنے اور گواہوں کو ازسرنو سننے کی استدعا کی جائے گی۔ان میں قتل ، اقدام قتل ، اغوا ، پولیس مقابلہ اور غیر قانونی اسلحہ کےمقدمات شامل ہیں۔ عزیر بلوچ کے خلاف بیشتر مقدمات میں 2012 سے 2013 تک ہونے والے جرائم شامل ہیں۔3 ماہ قبل عزیربلوچ کے مسلسل بری ہونے سے متعلق عدالت میں پراسیکیوٹر نے انکشافات کيا تھا کہ عذیر بلوچ کے کیسز سے متعلق گواہان و پراسیکیوشن کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ سرکاری وکيل نے کہا کہ گواہان پراسیکیوشن اور عدالتی عملے کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ عزیربلوچ کو رینجرز نے 30 جنوری 2016ء کو حراست میں لیا تھا۔ رینجرز نے اپریل 2017ء میں عزیر بلوچ کو جاسوسی اور غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو معلومات فراہم کرنے کے الزامات پر پاک فوج کے حوالے کر دیا تھا، کور 5 نے عزیر بلوچ کو تین سال بعد 6 اپریل 2020ء کو پولیس کے سپرد کردیا تھا۔