صدر مملکت عارف علوی کا کہنا ہے کہ مجھے آئین پاکستان استثنیٰ دیتا ہے مگر میں یہ استثنیٰ نہیں لینا چاہتا، تمام عدلیہ سے درخواست کروں گا کہ فیصلے بروقت ہوں۔ کیسز چلتے رہتے ہیں اور گواہ مر جاتے ہیں، کاغذات کھو جاتے ہیں، یاد داشتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی جمعہ 4 مارچ کو 2014 کے دھرنے کے کیس میں اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے۔ اس موقع پر بابر اعوان بھی ان کے ہمراہ تھے۔ صدر کی آمد سے قبل کوئی اضافی سیکیورٹی، نفری یا روٹ نہیں لگایا گیا۔ صدر عارف علوی اپنی گاڑی خود چلا کر عدالت پہنچے اور واپس روانہ ہوئے۔ عارف علوی بغیر نمبر پلیٹ گاڑی میں آئے اور گئے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج محمد علی وڑائچ نے کیس کی سماعت کی۔ آج ہونے والی سماعت میں عارف علوی کی جانب سے بطور صدر استثنیٰ ختم کرنے کی درخواست دائر کی گئی۔ سماعت کے آغاز میں صدر عارف علوی نے روسٹرم پر آنے کی اجازت مانگی۔ عدالت کے روبرو صدر عارف علوی کی جانب سے اسلامی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی، استثنیٰ کی گنجائش نہیں۔ میں آئین پاکستان کا پابند ہوں، مگر قرآن پاک اس سے بڑا آئین ہے۔ مجھے آئین پاکستان استثنیٰ دیتا ہے مگر میں یہ استثنیٰ نہیں لینا چاہتا، جتنے خلفا آئے وہ عدالتوں میں بڑے باوقار انداز سے پیش ہوئے۔ دوران سماعت کیس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2016 میں مجھ پر چارج لگا تھا، اسی عدالت سے ضمانت بھی لی تھی، جب تک امیر غریب سب برابر نہیں ہوں گے انصاف نہیں ہوگا۔ صدر نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ میں تمام عدلیہ سے بھی درخواست کروں گا فیصلے بروقت ہوں، یہاں مقدمات نسلوں کے ساتھ چلتے رہتے ہیں، کیسز چلتے رہتے ہیں گواہ مر جاتے ہیں، کاغذات کھو جاتے ہیں، یادداشتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اعلیٰ قیادت، بشمول صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، کو 2014 کے دھرنے کے مقدمات پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ ڈاکٹر عارف علوی نے جب صدر مملکت کا عہدہ سنبھالا تو ان کے وکیل نے ان سے صدارتی استثنیٰ حاصل کرنے کی تجویز دی تھی۔ آئین کے آرٹیکل 248 (2) کے مطابق صدر مملکت یا گورنر کے عہدے پر ہوتے ہوئے ان اشخاص کے خلاف کسی بھی عدالت میں مجرمانہ کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ تاہم صدر مملکت ٹرائل کا سامنا کرنے اور تمام سماعت میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ سال 2014 میں دیئے گئے دھرنے کے کیس میں پولیس نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی، اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شفقت محمود اور راجہ خرم کے خلاف دھرنے کے دوران تشدد پر ورغلانے پر انسداد دہشت گردی کی دفعات لگائی تھیں۔ اس کیس میں استغاثہ کے مطابق 3 افراد کا قتل ہوا تھا، 26 زخمی تھے جبکہ 60 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ استغاثہ نے 65 تصاویر، اسٹکس اور کٹر وغیرہ بھی عدالت میں بطور ثبوت جمع کرائے تھے۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ دھرنا پر امن نہیں تھا اور ملزمان نے 3 سال بعد ضمانت لی تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 31 اگست 2014 کو پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے کارکنان نے پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیر اعظم ہاؤس کی طرف مارچ کیا تھا جس کے دوران ان کی شاہراہ دستور پر تعینات پولیس سے جھڑپ بھی ہوئی تھی۔