تازہ ترین

سانحہ اے پی ایس:وزیراعظم سپریم کورٹ پہنچ گئے

سانحہ-اے-پی-ایس:وزیراعظم-سپریم-کورٹ-پہنچ-گئے

وزیراعظم عمران خان چیف جسٹس پاکستان کے طلب کرنے پر سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں۔ قبل ازیں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے کیس کے دوران اٹارنی جنرل سے سوال کرتے ہوئے کہا چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران کیخلاف مقدمہ درج ہوا؟ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ آج بروز بدھ 10 نومبر کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے حملے سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ گزشتہ سماعت پچھلی سماعت کے دوران درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ اے پی ایس حملے میں ہم نے اپنے بچے کھو دیے لہذا کیس کی ایف آئی آر درج کی جائے اور معاملے کی تحقیقات کر کے ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا تھا کہ معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ آج ہونے والی سماعت آج اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اعلیٰ حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ سیکیورٹی غفلت عدالت نے اٹارنی جنرل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ سکیورٹی لیپس تھا، حکومت کو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے، اس وقت کے تمام عسکری و سیاسی حکام کو اس کی اطلاعات ہونی چاہیے تھی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہماری ایجنسیوں اور اداروں کو تمام خبریں ہوتی ہیں لیکن جب ہمارے اپنے لوگوں کی سکیورٹی کا معاملہ آتا ہے تو وہ ناکام ہو جاتی ہیں۔ عوام کی حفاظت کی بات آتی ہے تو انٹیلیجنس کہاں چلی جاتی ہیں؟۔ انٹیلیجنس پر اتنا خرچ ہو رہا ہے لیکن نتائج صفر ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپریشن ضرب عضب جاری تھا اور اس کے ردعمل میں یہ واقعہ پیش آیا، ہمارے حکومتی اداروں کو اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے تھے۔ اے پی ایس کا واقعہ سیکیورٹی کی ناکامی تھی، کیس میں رہ جانے والی خلا سے متعلق آپ کو آگاہ کرنے کا کہا گیا تھا۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ دہشت گردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو۔ سابق آرمی چیف اور ذمہ داران کیخلاف مقدمہ؟ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کی اسابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران کیخلاف مقدمہ درج ہوا؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کیخلاف انکوائری رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چوکیدار اور سپاہیوں کیخلاف کارروائی کر دی گئی۔ اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی۔ اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لیکر چلتے بنے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا تھا اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں، اپنا دفتر چھوڑ دوں گا لیکن کسی غلطی کا دفاع نہیں کروں گا، اگر عدالت تھوڑا وقت دے تو وزیراعظم اور دیگر حکام سے ہدایات لیکر عدالت کو  معاملے سے آگاہ کروں لیکن چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک سنگین نوعیت کا معاملہ ہے، اس پر وزیراعظم سے ہی جواب طلب کریں گے۔ وزیراعظم عدالت طلب چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا، وزیراعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے ؟ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کرینگے، ایسے نہیں چلے گا۔ سماعت میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بھی تذکرہ بینچ میں شامل جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کر رہی ہے۔ بچوں کو اسکولوں میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ اداروں کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کا رد عمل آئے گا۔ سب سے نازک اور آسان ہدف اسکول کے بچے تھے۔ لواحقین کی راحیل شریف، جنرل ظہیر کیخلاف مقدمے کی استدعا  سماعت کے موقع پر کمرہ عدالت میں موجود شہید کے والدین کے وکیل امان اللہ کنرانی نے کہا کہ حکومت ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ قصاص کا حق والدین کا ہے ریاست کا نہیں۔ ریاست سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ اس پر عدالت نے جواباً کہا کہ یہ سیاسی باتیں یہاں نہ کریں یہ عدالت ہے۔ قبل ازیں شہداء کے والدین نے سپریم کورٹ سے جنرل راحیل شریف، جنرل ظہیر السلام کیخلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی تھی۔ جب کہ اس ووقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار، کور کمانڈر جنرل ہدایت الرحمان کیخلاف بھی مقدمہ درج کرنے کی استدعا گئی تھی۔ والدین نے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور سابق سیکریٹری داخلہ اختر شاہ کیخلاف بھی کارروائی کی استدعا کی تھی ۔ عدالت نے گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو والدین کی استدعا پر حکومت سے ہدایات لیکر آگاہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کی گئی تھی جو وزیراعظم عمران خان کے سپریم کورٹ پہنچنے کے بعد دوبارہ شروع کی گئی۔

زیادہ پڑھی جانےوالی خبریں