مانسہرہ : دو ہزار پانچ کے زلزلے کو سترہ برس بیت گئے۔ شہدا کے لواحقین کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ آٹھ اکتوبر 2005 ۔۔۔ صبح آٹھ بج کر باون منٹ ۔۔۔ جب زمین کانپ اٹھی ۔ پہاڑ لرزے اور بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں ۔ آزاد کشمیر، ہزارہ اور اسلام آباد سمیت مختلف علاقوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ 39 سیکنڈ میں سب کچھ ملیامیٹ ہوگیا ۔ بالاکوٹ ملبے کا ڈھیر بنا تو مظفرآباد قبرستان کا منظر پیش کرنے لگا۔ راولاکوٹ اور باغ کے سکولوں میں ملبے تلے دبے بچوں کی چیخیں سسکیوں میں ڈھل کر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئیں۔ یہ ایک دردناک داستان تھی جو آج تک کوئی نہیں بھلا سکا۔ لوگ اپنے پیاروں کے غم میں آج بھی نڈھال ہیں۔ 8 اکتوبر کے ہولناک زلزلے کا سن کر آج بھی دل دہل جاتا ہے ۔ اس قیامت صغری میں 80 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ، 6 لاکھ مکانات تباہ اور 5 لاکھ خاندان بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اسلام آباد کا مارگلہ ٹاور ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ زلزلہ سے بالاکوٹ کے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔ 15 ہزار افراد شہید ، 75 ہزار کے قریب شدید زخمی ہوئے اور بڑی تعداد میں مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ زلزلے سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ 126 ارب روپے لگایا گیا تھا ۔ دنیا بھر سے 5 اعشاریہ 6 ارب ڈالرز کی امداد ملی۔ تین سو ارب روپے کی لاگت سے چھ ہزار منصوبے مکمل ہو چکے مگر کئی منصوبے آج بھی التوا کا شکار ہیں جو تعمیر نو کے ادارے ایرا سیرا کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ 2005 کے زلزلہ میں امداد کیلئے پاکستانی قوم کا جزبہ دیدنی تھا، ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ ٹرکوں میں امدادی سامان بھر کر لائے، مصیبت کی گھڑی میں پوری قوم نے دل کھول کر مدد کی ۔