تازہ ترین

حکومت کی کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کی تصدیق

حکومت-کی-کالعدم-تحریک-طالبان-پاکستان-سے-مذاکرات-کی-تصدیق

وفاقی حکومت نے کئی روز بعد افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کی بالآخر تصدیق کردی ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسیوں کی جانب سے گزشتہ 2 ماہ سے پاکستان حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کا دعویٰ کیا جارہا تھا۔ امریکی خبر ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور پاکستانی حکومت کے درمیان مذاکرات افغان طالبان کی ثالثی میں ہو رہے ہیں۔افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی مذاکراتی عمل میں معاونت کر رہے ہیں۔ غیر ملکی نشریاتی اداروں نے افغان طالبان اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ چند روز قبل کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے کابل آئے تھے اور اُن کی کالعدم ٹی ٹی پی کی قیادت کے ساتھ بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے باقاعدہ طور پر ان مذاکراتی کی تصدیق کردی۔ حکومتی موقف اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران مریم اورنگزیب نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذکرات جاری ہیں، مذاکرات میں سول اور عسکری حکام شامل ہیں اور افغان حکومت اس کی سہولت کار ہے۔ https://twitter.com/PTVNewsOfficial/status/1532749328649007105?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1532749328649007105%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.samaa.tv%2Fnews%2F40001097 کالعدم ٹی ٹی ٹی پی جانب سے پاکستان میں منظم کارروائیاں نہ کرنے کی ڈیڈ لائن میں غیر معینہ مدت کی توسیع کو خوش آئندہ قرار دیتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حالیہ اعلان حکومتی سطح پر خیرمقدم کرتے ہیں۔ مریم اورنگزیب نے مزید کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کا دائرہ کار آئینی ہے، اس کا جو بھی فیصلہ ہوگا اس کی پارلیمان اور حکومت منظوری دے گی۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی شرائط کیا ہیں؟ غیر ملکی خبر ایجنسیوں کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی نے حکومت کے سامنے کئی مطالبات رکھے ہیں جن میں سب سے اہم ضم کئے گئے قبائلی اضلاع کی آزاد حیثیت میں بحالی اور قبائلی اضلاع سے فوج کی واپسی شامل ہے۔ اس کے علاوہ قبائل علاقوں میں فوجی آپریشن کے دوران ہونے والے جانی اور مالی نقصان کا ازالہ اور گرفتار رہنماؤں اور جنگجوؤں کے خلاف مقدمات کا خاتمہ و رہائی اور ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ سیز فائر میں توسیع جنگ بندی کا یہ سلسلہ عید سے پہلے شروع کیا گیا تھا جس میں وقتاً فوقتاً توسیع کی جاتی رہی، تاہم اب یہ توسیع غیر معینہ مدت کے لیے کر دی گئی ہے جس سے بظاہر لگتا ہے کہ مذاکرات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے ترجمان نے 29 اپریل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ 10 شوال تک جنگ بندی رہے گی۔ اس بیان میں تمام کارکنوں سے کہا گیا تھا کہ اس جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد کیا جائے اور کہیں بھی کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس دوران ملک کے کسی علاقے سے بھی تشدد کے کسی واقعے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ اس کے بعد بھی طالبان کی جانب سے جنگ بندی میں محدود مدت کے لیے دو مرتبہ توسیع کی گئی تاہم حکومت پاکستان کی جانب سے اس بارے میں مکمل خاموشی رہی۔ مذاکرات کا پس منظر کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے لیے گزشتہ دنوں 40 سے زیادہ قبائلی عمائدین اور علما پر مشتمل ایک وفد جنوبی وزیرستان سے کابل گیا تھا جبکہ اس سے پہلے شمالی وزیرستان کا ایک وفد مذاکرات کے بعد وہاں سے واپس لوٹا تھا۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا پہلا دور افغانستان کے علاقے خوست میں ہوا تھا جس میں چند ایک باتوں پر اتفاق ہوا تھا۔ ان کے مطابق ان میں یہ بات بھی شامل تھی کہ افغان طالبان ثالث کا کردار ادا کریں گے۔ قیدیوں کی رہائی کے بارے میں تفصیل سے بات چیت ہوئی تھی اور حکومت بشمول مسلم خان اور محمود خان 102 قیدیوں کو رہا کرنے پر راضی ہوئی۔ پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کا دوسرا مرحلہ کابل میں ہوا جس میں امارات اسلامی افغانستان کے حکام نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔

زیادہ پڑھی جانےوالی خبریں