اسلام آباد: جمیعت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف آزادی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے جس پر اب حکومت نے جے یو آئی (ف) کو آزادی مارچ کی اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پرویز خٹک کی سربراہی میں مذاکراتی ٹیم نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر مارچ قانون کے مطابق ہوا تو روکا نہیں جائے گا۔سرکاری ترجمان نے کہا کہ حکومت جمہوری روایات پر پختہ یقین رکھتی ہے۔ مارچ کی اجازت سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں سے مشروط ہو گی۔ پُر امن احتجاج پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ دوسری جانب جمیعت علمائے اسلام (ف) کے کارکنوں اور ان کے اتحادیوں نے مارچ کی باقاعدہ تیاریوں کا آغاز کر رکھا ہے جبکہ اس کے لیے مارچ میں شرکت کرنے والوں کے نام ایک ہدایت نامہ بھی جاری کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ آزادی مارچ کی اجازت سے متعلق پہلے ہی کچھ اطلاعات موصول ہوئی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ حکومت آزادی مارچ کی اجازت دینے پر غور کر رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا تھا کہ یہ فیصلہ کیا جارہا ہے کہ خط کے ذریعے فضل الرحمان کو کہا جائے گا کہ وہ پریڈ گراؤنڈ میں جلسہ بھی کرسکتے ہیں اور احتجاج بھی کر سکتے ہیں۔ اُنہیں کہا جائے گا کہ وہ قانون کے اندر رہتے ہوئے دھرنا دینا چاہیں تو وہ بھی دے سکتے ہیں۔اس ضمن میں ان سے تحریری طور پر جواب بھی مانگا جائے گا اور ان کی مقامی قیادت کو بھی اس حوالے سے خط لکھا جائے گا۔ذرائع کے مطابق مولانا فضل الر حمان کو معاملات طے ہونے کے بعد ہی اسلام آباد آنے کی اجازت دی جائے گی اور اہم حکومتی ذمہ داران اس حوالے سے مکمل طور پر آگاہ ہوں گے ۔مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے شرکاء کی ممکنہ تعداد اور طوالت کے حوالے سے بھی ر پورٹس حاصل کی گئی تھیں۔ تاہم اب حکومت نے آزادی مارچ کی اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جسے عدالتی فیصلوں سے مشروط کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اجازت ملنے پر جے یو آئی (ف) کی جانب سے فی الوقت کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔