تازہ ترین

جج ارشد ملک کے مبینہ ویڈیو اسکینڈل سے متعلق درخواستوں کی سماعت

جج-ارشد-ملک-کے-مبینہ-ویڈیو-اسکینڈل-سے-متعلق-درخواستوں-کی-سماعت

 احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے مبینہ ویڈیو اسکینڈل سے متعلق دائر درخواستوں پر آج سپریم کورٹ میں سماعتہوئی۔ تفصیلات کے مطابق ویڈیو اسکینڈل کی انکوائری کے لیے دائر کی جانے والی آئینی درخواستوں پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال بھی شامل ہیں عدالت میں سماعت کے آغاز پر درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل منیر صادق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ویڈیو لیکس اسکینڈل کے ذریعےعدلیہ پر سوالات اُٹھائے گئے، یہ عدلیہ کی آزادی اور وقار کے حوالے سے ایک اہم اور حساس معاملہ ہے، لہٰذا عدالت اس معاملے کی تحقیقات کروا کر ذمہ داران کا تعین کرے۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ یہ مقدمہ مفاد عامہ کا ہے، مریم نواز نے 6 جولائی کو لاہور میں پریس کانفرنس کی، جس میں کچھ الزامات لگائے گئے، جس میں کہا گیا کہ عدلیہ دباؤ میں کام کر رہی ہے۔ وکیل نے کہا کہ یہ سنگین الزامات ہیں، اس کی انکوائری ہونی چاہئیے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے کیا ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ میں سچ کی تلاش چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور وکلا نے ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا کہا، لہٰذا ایک کمیشن بنایا جائے، بے شک یہ کمیشن ایک رکنی ہی کیوں نہ ہو۔ وکیل کے جواب پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کمیشن کا سربراہ کون ہو؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جج کمیشن کے سربراہ ہو، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ ایسا کلچر بن گیا ہے کہ ایک کے خراب ہونے پر سب کو ایسا سمجھا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ سارے جج ایسے ہیں، سارے سیاستدان ایسے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بتائیں کہ کمیشن کیا دیکھے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ کمیشن سچائی کو دیکھے کہ اگر الزام ثابت ہو تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہئیے ۔ دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ احتساب عدالت کے جج نے بیان حلفی کے ذریعے کچھ حقائق بیان کیے، وزیر اعظم عمران خان نے بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ عدلیہ ویڈیو کے معاملے پر نوٹس لینا چاہئیے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور امیر جماعت اسلامی نے بھی عدلیہ سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا، سیاسی جماعتوں کا ماننا ہے کہ عدلیہ اساسکینڈل کی تحقیقات کرے، اس کے علاوہ پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے بھی یہی مطالبہ دہرایا ہے کہ اس کیس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ وکیل کے دلائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کے کہنے پر کوئی کام کریں گے تو کیا ہم آزاد ہوں گے، ازخود نوٹس کسی کے مطالبے پر لیں تو پھر وہ ازخود نوٹسنہیں ہوا۔۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی آئینی درخواستوں میں استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ لیک شدہ ویڈیو کی انکوائری کا حکم دے اور جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔درخواستگزاروں کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے وقار کو برقرار رکھنے کے لیے ملوث افراد کے خلافتوہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ درخواستیں اشتیاق احمد مرزا، سہیل اختر اور ایڈوکیٹ طارق اسد نے دائر کی تھیں جس میں وفاقی حکومت، نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی اور راجہ ظفر الحق کو فریق بنایا گیا۔درخواستوں میں جج ارشد ملک، ویڈیو کے مرکزی کردار ناصر بٹ اور پیمرا کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے احتساب عدالت کےجج ارشد ملک کی ویڈیو جاری کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ ن نے جج ارشد ملک پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کیسز کے فیصلے دباؤ میں آ کر دئے جس پر جج ارشد ملک نے اپنا بیان حلفی جمع کروایا جس میں شریف خاندان کی جانب سے رشوت کی پیشکش سمیت دیگر اہم انکشافات کیے گئے تھے۔

زیادہ پڑھی جانےوالی خبریں