اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ میں ثاقب نثار کی آڈیو لیک کیس کی سماعت میں عدالت نے درخواست گزار صلاح الدین کو ارشد ملک ویڈیو کیس کا حوالہ دینے سے روک دیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات کیلئے درخواست پر سماعت کی ۔ درخواستگزار صلاح الدین ایڈووکیٹ، اٹارنی جنرل خالد جاوید عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اصل آڈیو کدھر ہے ؟ جس پر درخواست گزار نے جواب دیا کہ اصل آڈیو موجود نہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اگر کل کو ہم فرانزک کرائیں اور رائے آجائے کہ یہ آڈیو مستند نہیں تو کیا اپیل میں فئیر ٹرائل کا حق متاثر نہیں ہو گا؟ درخواست گزار نے کہا کہ مذکورہ صحافی کبھی بھی اصل آڈیو نہیں دیگا۔ اگر عدالت سمن جاری کرے تب ہی آڈیو مل سکتی ہے۔ درخواست گزار صلاح الدین نے کہا کہ ہو سکتا ہے آڈیو کے علاوہ دیگر گراؤنڈز پر کل شریف فیملی بری ہو جائے۔ فرانزک کرائیں شاید رپورٹ میں آڈیو کے جعلی ہونے کی تصدیق ہو جائے۔ اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ بولے آپکو بتانا ہو گا کہ اس عدالت سے کیا شکوہ ہے؟ دوران سماعت عدالت نے صلاح الدین کو ارشد ملک ویڈیو کیس کا حوالہ دینے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جج ارشد ملک ویڈیو کیس اپیلوں کے ساتھ زیر التوا ہے ۔ ارشد ملک کا اپنا بیان حلفی بھی اُسی کیس کا حصہ ہے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل میں کہا کہ جسے عدلیہ پر اعتبار نہیں کھل کر کہے۔ درخواست میں اٹھائے گئے سارے نکات زیر التوا کیس سے متعلق ہیں۔ اس معاملے پر کیا عدالت اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈال سکتی ہے؟ کمیشن بھی بنا لیں تو کیا گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ زیر التوا اپیل متاثر نہیں ہو گی۔ عدالت نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو کی تحقیقات اور کمیشن تشکیل دینے کی درخواست پر دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔