افغان طالبان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کا منصوبہ ہے کہ اگلے ماہ وہ افغان حکومت کو تحریری طور پر امن منصوبہ پیش کریں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ’امن مذاکرات اور ان پر عمل آنے والے دنوں کے دوران تیز ہوگا۔ اور توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اہم مرحلے میں داخل ہوجائے گا۔ ظاہر ہے یہ امن منصوبوں کے بارے میں ہوگا۔‘ ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق: ’ممکن ہے کہ دونوں فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تحریری امن منصوبوں کا تبادلہ کرنے میں ایک ماہ کا عرصہ لگ جائے۔‘ ان کے مطابق امن مذاکرات کا حال ہی میں ہونے والا مرحلہ اہم تھا۔ انہوں نے کہا: ’حالانکہ ہمارا (طالبان) محاذ جنگ پر پلڑا بھاری ہے پھر بھی ہم امن اور مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں۔‘ افغان عسکریت پسندوں کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب طالبان امریکی افواج کے اخلا کے بعد کئی علاقوں پر قبضے کر رہے ہیں، اور افغان سکیورٹی فورس کے سینکڑوں اہلکاروں نے پڑوسی ملک تاجکستان میں پناہ لے لی ہے۔ چند دن قبل ہی امریکہ نے افغانستان میں بگرام بیس خالی کی ہے جو گذشتہ دو دہائیوں سے امریکی اور نیٹو افواج کا مسکن رہی ہے۔ بگرام ایئر بیس کی افغان فوج کو منتقلی کے بعد طالبان کے نئے اضلاع پر قبضوں کی مہم میں بھی تیزی آئی ہے اور انہوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت کے نمائندے کے ساتھ گذشتہ ہفتے جمود کے شکار مذاکرات کو بھی بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغان نیشنل آرمی کا ہیلی کاپٹر بگرام ایئر بیس میں پرواز کر رہا ہے۔ اس ہوائی اڈے کا انتظام اب افغان سکیورٹی فورسز کے پاس ہے (اے ایف پی فائل) لڑائی اور شورش میں شدت اور بکھرے ہوئے افغان سکیورٹی فورسز کے ہزاروں اہلکاروں کے فرار ہوجانے نے امریکی قیادت میں امن مذاکرات کے بارے میں سنگین شکوک پیدا کیے ہیں۔ یہ امن مذاکرات سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے تحت گذشتہ سال شروع ہوئے تھے۔ طالبان کے ترجمان کے بیان پر ردعمل کی درخواست پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں 40 سال تک جاری رہنے والی جنگ کے خاتمے کا واحد راستہ مذاکرات ہی تھے۔ اعلیٰ امریکی عہدیدار کا کہنا تھا: ’ہم فریقین پر زور دیں گے کہ سنجیدہ مذاکرات میں مشغول ہوں تاکہ افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک سیاسی روڈ میپ طے کیا جاسکے جو ایک منصفانہ اور پائیدار تصفیے کا باعث بنے۔‘ امریکی عہدیدار نے مزید کہا: ’دنیا بھر میں کوئی بھی افغانستان میں کسی حکومت کو طاقت کے ذریعے مسلط کرنے کو قبول نہیں کرے گا۔ کسی بھی افغان حکومت کی قانونی حیثیت اور امداد اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ حکومت انسانی حقوق کا بنیادی طور پر احترام کرے۔‘ طالبان کی کارروائیاں معربی سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں نے سو سے زیادہ اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے لیکن طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے 34 صوبوں کے دو سو اضلاع کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ اتوار کو طالبان کی پیش قدمی کے باعث افغان سکیورٹی فورسز کے ایک ہزار سے زیادہ اہلکاروں نے تاجکستان کے ساتھ شمالی سرحد کے قریب ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ تاجک باڈر گارڈ سروس کا کہنا ہے کہ دیگر درجنوں اہلکاروں کو عسکریت پسندوں نے یرغمال بھی بنا لیا ہے۔