واشنگٹن: امریکا نے فلوریڈا میں ایک سعودی افسر کی جانب سے فائرنگ کے واقعے کے بعد انتہا پسندوں سے روابط اور چائلڈ پورنو گرافی کے الزام میں ایک درجن سعودی فوجی طالبعلموں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دسمبر میں امریکا میں سعودی فوجی تربیتی پروگرام میں شامل محمد الشامرانی نے نیول ایئر اسٹیشن پینساکولا میں فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں 3 نیوی اہلکار ہلاک اور 8 افراد زخمی ہوگئے تھے بعد میں حملہ آور بھی پولیس کی فائرنگ سے مارا گیا تھا۔سی این این کی رپورٹ کے مطابق حملے کے بعد کی گئی تحقیقات میں ایک درجن سے زائد زیر تربیت اہکار محمد الشامرانی کی مدد کرنے کی ملوث نہیں لیکن کچھ افراد کے انتہا پسندوں تنظیموں سے روابط یا چائلڈ پورنوگرافی میں ملوث پائے گئے۔ مذکورہ تحقیقات فیڈرل بیورو آف انویسٹگیشن (ایف بی آئی) نے کیں جس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ حملے سے قبل کسی نے حملہ آور نے پریشان کن رویے کے بارے میں نہیں بتایا۔دسمبر کے وسط میں پنٹاگون نے کہا کہ امریکا میں اس وقت ایرِ تربیت سعودی فوجی اہلکاروں کے پس منظر کا جائزہ لیا گیا اور ’فوری خطرے کی کوئی بات سامنے نہیں آئی‘۔وزارت دفاع کے حکام نے حملے کے بعد سعوی عرب کے فوجی طالبعلموں کے لیے عملی تربیت روک دی تھی تاہم کمرہ جماعت میں پڑھانے کا عمل جاری تھا۔حملہ کرنے والے 21 سالہ نوجوان سعودی رائل ایئرفورس میں لیفٹیننٹ تھا اور اس کے پاس قانونی طریقے سے خریدی گئی گلاک 9 ایم ایم ہینڈ گن موجود تھی۔ اس نے فائرنگ کرنے سے قبل ٹوئٹر پر اپنا منشور بھی شائع کیا تھا جس میں امریکا کو ’شیطان کی قوم‘ کہہ کر مذمت بھی کی تھی۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ’ایف بی آئی نے محمد الشامرانی کے 2 آئی فونز تک رسائی کے لیے ایپل سے مدد مانگی ہے لیکن کمپنی حکومت کی جانب سے انکرپشن توڑنے کی درخواست پر مزاحمت کررہی ہے۔ایپل کا کہنا تھا کہ وہ کلاؤڈ اسٹوریج میں متعلقہ ڈیٹا فراہم کر کے پہلے ہی ادارے کی مدد کرچکے ہیں۔واضح رہے کہ امریکا میں غیر ملکی افواج کے 5 ہزار اہلکار زیر تربیت ہیں جس کے تمام شعبوں میں تقریباً 8 سو 50 سعودی اہلکار بھی شامل ہیں۔