وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے کہا ہے کہ جب امریکہ کا مفاد پورا ہو جاتا ہے تو پاکستان کو ایک طرف کر دیا جاتا ہے۔ بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں میزبان اسٹیفن سیکر کو دیے گئے انٹرویو میں معید یوسف نے افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے، امریکا اور نیٹو فورسز سمیت چین سے تعلقات پر گفتگو کی۔ پروگرام ہارڈ ٹاک میں اسفٹین سیکر کی جانب سے افغانستان میں طالبان حکومت کے پاکستان کی سیکیورٹی پر منفی یا مثبت اثرات کے سوال پر معید یوسف نے جواب دیا کہ اس کا انحصار اس بات پر کرتا ہے کہ عالمی برادری اس معاملے میں کیا کردار اد اکرتی ہے، پاکستان وہ واحد ملک تھا جس نے ہمیشہ یہ کہا تھا کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، ہم کہتے رہے کہ مذاکرات کیے جائیں اور یہ حقیقت ہے۔ پاک امریکا تعلقات پر انہوں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں ہمیشہ اُتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ ہم بہت قریب آ جاتے ہیں، اتحادی بن جاتے ہیں لیکن بدقسسمتی سے جب امریکہ کا مفاد پورا ہو جاتا ہے تو پاکستان کو ایک طرف کر دیا جاتا ہے۔معید یوسف نے کہا کہ اس وقت دو طرفہ بہت اچھی بات چیت چل رہی ہے لیکن افغانستان کے معاملے پر عدم اعتماد اب بھی باقی ہے۔ معید یوسف نے مزید کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، یہ بہت بڑی برآمدی مارکیٹ ہےاور ہمارے لاکھوں شہری وہاں رہ رہے ہیں ہم اس تعلق کو خراب کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ان کا کہنا تھا ہم امریکہ کے ساتھ اس بارے میں بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ہاں عدم اعتماد ضروری ہے۔ ایک سوال کے جواب میں معید یوسف نے کہا کہ معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کی اپنی سوچ اور نکتہ نظر میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور اب جیو اسٹریٹیجک کے بجائے جیو اکنامک نظریہ پایا جاتا ہے۔ اب ہم فوجی اڈوں کی پیشکش کے بزنس میں نہیں مگر ہمارے اکانومک (معاشی) اڈے سب کے لیے کھلے ہیں۔ گوادر میں چین کی سرمایہ کاری کے سوال پر معید یوسف کا کہنا تھا کہ ہمارا چین سے اسٹریٹیجک تعلق ہے جو ہمیشہ رہا ہے اور ہمارے آپسی تعلقات مضبوط سے مضبوط ہوتے جا رہے ہیں لیکن یہ تعلقات کسی اور ملک کی قیمت پر نہیں ہیں۔ معید یوسف گوادر کے بارے میں واضح کرتا جاؤں کہ وہاں چین کے کوئی فوجی اڈے نہیں بلکہ وہاں اکنامک اڈے ہیں اور ہم نے امریکہ، مشرق وسطیٰ اور روس کو بھی ان معاشی اڈوں کی پیشکش کی ہے جو پاکستان میں آ کر سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ پروگرام میں طالبان سے وابستگی اور پاکستان میں زخمی طالبان جنگجوؤں کے علاج سے متعلق سوال پر معید یوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان اس جنگ کا بنیادی متاثر ملک تھا، نائین الیون سے قبل ہمارے ملک میں خودکش دھماکے نہیں ہوتے تھے لیکن نائین الیون کے بعد سے 80 ہزار پاکستان دہشتگرد حملوں میں جاں بحق ہوئے اور معیشت کو 150 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا جبکہ ملک میں 35 لاکھ افراد بے گھر ہوئے، لاکھوں افغان مہاجرین ملک میں موجود ہیں، ’آپ کا خیال ہے ہم پاگل ہیں کہ ہم کسی ایسی چیز کی حوصلہ افزائی کریں گے جو ہمارے ملک میں ایسی تباہی لائے‘؟ انہوں نے کہا کہ ایسے الزامات سامنے آئےاور ہم دنیا کو وضاحتیں دیتے رہے کہ کابل حکومت ایسا اس لیے کہتی رہتی ہے کیونکہ وہ کرپٹ اور نااہل ہے اور مغرب کے پیسے کا غلط استعمال ہورہا ہے لیکن کسی نے ہماری نہیں سنی۔معید یوسف نے کہا کہ یہ بیانیہ مغرب لایا اور اب یہ شرمندگی کی بات ہے کہ مغربی ٹیکس دہندگان اپنی حکومت سے سوال کررہے ہیں کہ ہمارا پیسہ کہاں گیا۔ مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ جس طرح سے جنگ جاری تھی اس میں ہمارا کوئی مفاد نہیں تھا۔ ہم وہ ملک ہیں جس کی دوحہ امن معاہدے کے لیے کوششوں کو امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک نے تسلیم کیا ہے جس کا آخری نکتہ ایک جامع حکومت کا قیام ہونا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ افغان صدر نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ جس فوج کو تیار کیا گیا تھا اس نے لڑائی ہی نہیں کی تو اس کا نتیجہ جو نکلا وہ سامنے ہے، اس میں پاکستان کو موردِ الزام نہ ٹھہرائیں۔ ایک سوال کے جواب میں معید یوسف نے کہا کہ افغانستان سے 1600 میل کی سرحد موجود ہے، ملک میں 40 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں میں یہی کہوں گا کہ جب افغانستان غیر مستحکم ہوگا تو ہمارا ملک بھی غیرمستحکم ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ چاہے کوئی بھی حکومت ہو ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان مستحکم ہو کیونکہ اگر افغانستان غیرمستحکم ہوتا ہے تو اس کا نقصان پاکستان کو بھی ہوگا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں افغان طالبان کی ثالثی کے سوال پر معید یوسف نے کہا کہ یہ مڈل مین کا معاملہ نہیں، وہافغانستان پر حکومت کر رہے ہیں اور ٹی ٹی پی کی ساری قیادت افغانستان میں ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس گروہ نے ہزاروں پاکستانیوں کو قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ براہ راست یا بالواسطہ ہر پاکستانی ان کی دہشتگردی کا نشانہ بنا۔ یہ وہ گروپ ہے جس کی حمایت بھارت اور اشرف غنی کے دورِ حکومت میں افغان انٹیلی جنس نے کی تاکہ پاکستان میں دہشتگردی کو فروغ دیا جا سکے۔ تو اگر کسی کو اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے تو وہ صرف پاکستان اور پاکستان کے عوام ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے والدین ہیں جنہوں نے اپنے بچے کھوئے، ایسے بھائی ہیں جنھوں نے بہنیں کھوئیں، ایسے بیٹے تھے جنھوں نے اپنے باپ کھوئے، ایسے قبائل تھے جن کو ختم کر دیا گیا، ان تمام لوگوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے لیکن پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہم کیا کرنے کی کوشش کرہے ہیں۔ معید یوسف کا کہنا تھا کہ بحیثیت ایک ریاست ہماری مستقل طور پر یہ کہنے کی پالیسی رہی ہے کہ بات چیت سے تنازعات کو ختم کیا جا سکتا ہے اور مذاکرات ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانستان میں 20 برس تک امریکیوں، برطانیہ اور دوسروں کو بھی یہی بتایا، میری خواہش ہے کہ انہوں نے ہماری بات سنی ہوتی۔ مشیر قومی سلامتی نے مزید کہا کہ ‘اب صورتحال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی لائف لائن انڈیا اور افغان انٹیلیجنس تھی جو اب جا چکے ہیں۔ ان کے افغانستان میں افغان طالبان کے ساتھ روابط ہیں۔ ہم اس وقت مضبوط پوزیشن میں ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ اس وقت کمزور ہو رہے ہیں تو ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ معافی مانگ رہے ہیں، اگر وہ پاکستان میں قانون کے راستے سے گزرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے آئین کے تحت رہنا چاہتے ہیں، اپنے جرائم کی سزا قبول کرتے ہیں، ہمیشہ کے لیے تشدد چھوڑ دیتے ہیں تو ہم ان کی بات سننے کو تیار ہیں‘۔ انٹرویو کے دوران ٹی ٹی پی کے قیدیوں اور کچھ سینیئر طالبان رہنماؤں کو سیز فائر معاہدے کے تحت رہا کرنے کے سوال پر معید یوسف نے کہا کہ یہ سچ نہیں اور ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان (ٹی ٹی پی) کی بات سن رہے ہیں کہ کیا وہ اس بارے میں سنجیدہ بھی ہیں یا نہیں کیونکہ خاندان ہیں، بیوی بچے ہیں، ہزاروں پاکستانی ہیں جن کا کسی نہ کسی طرح ان سے تعلق ہے اور ریاست کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی دوسرے پاکستانی کو مار ڈالے۔ معید یوسف نے کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے کہ کسی کا خون بہے پاکستان کے شہری اب محفوظ ہیں۔ مشیر قومی سلامتی کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر تمام آپشنز کھلے ہیں لیکن ہر ریاست کو یہ حق حاصل ہے، جو میرے نزدیک عقلمندانہ ہے کہ جہاں آپ کے پاس مضبوط پوزیشن ہو تو تنازعات کو بات چیت سے ختم کیا جائے۔ معید یوسف نے مزید کہا کہ اس معاملے پر میڈیا رپورٹنگ میں بہت زیادہ شور شرابا ہے لیکن ابھی ایسا کچھ بھی نہیں اور اگر ایسا ہوگا تو میرا یقین کریں کہ جب ہم چاہیں گے ہم آپ کو اور دنیا کو بتا دیں گے۔