اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے حکومت کے ساتھ اسلام آباد مارچ کے معاملے پر کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کا خدشہ ہے جس پرحکومت نے پلان بی بھی اسٹینڈ بائی کر دیا ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے بچا جا سکے ۔اس حوالے سے اعلیٰ سرکاری حکام نے بتایا کہ حکومت کو خدشہ ہے کہ اسلام آباد مارچ کے معاملہ پر مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) حکومت کے ساتھ طے کردہ معاہدے کی خلاف ورزی کر سکتی ہے ،اسی لیے حکومت پلان بی تحت ان کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال کرے گی اور فضل الرحمان سمیت ان کی ٹاپ قیادت کو نقص امن پر حراست میں لے سکتی ہے ۔ایسی اطلاعات موجود ہیں جن سے خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام(ف)کی ہارڈ لائن قیادت کی طرف سے معاہدے پر عمل نہ کرنے کا ارادہ ہے اور حکومت سے معاہدے کو وفاقی دارالحکومت تک پہنچنے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کیا جائےگا۔ قومی اخبار میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا کہ مارچ کی مانٹیرنگ اینڈ سرویلنس کے لیے ٹاپ انٹیلی جنس اداروں سمیت لا انفورسنگ ایجنسیز پر مشتمل ٹیمز کام کر رہی ہیں۔حکومت کے پلان بی کا استعمال فیلڈ انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر کیا جائیگا۔ حکومت سے معاہدہ طے پانے پر فضل الرحمان کی جماعت کے کسی سطح کے لیڈر کو نقص امن عامہ کے خدشہ کے پیش نظر بھی حراست میں نہیں لیا گیا ،لیکن معاہدہ کی خلاف ورزی پر ریاست کی مشینری اپنی پوری فورس کا استعمال کریگی۔جمعیت علمائے اسلام (ف)کی ہر سطح کی قیادت انڈر واچ ہے جبکہ مارچ کی مکمل نگرانی کی جا رہی ہے ۔حکومت نے مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد مارچ کے حوالے سے تین نکاتی فارمولا بنایا تھا جس میں پلان اے کے تحت جمعیت علمائے اسلام (ف)کو مذاکرات کے ذریعے آئین اور قانون کے مطابق مارچ کرنے کی اجازت اور اوران کے جائز مطالبات پر بات چیت شامل تھی جبکہ پلان بی کے تحت فضل الرحمان اور ان کی جماعت کی طرف سے اسلام آباد پر چڑھائی کی کوشش کو ریاست کی میڈیم فورس سے روکنا شامل ہے جس میں لا انفورسنگ اداروں اور پیرا ملٹری فورس کا استعمال کرتے ہوئے لا اینڈ آرڈر کی صورت کو کنٹرول کیا جانا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت کو یرغمال بنانے کی صورت میں ''پلان سی'' کو استعمال کیا جانا ہے جس کے تحت فوج کی مدد طلب کی جا سکتی ہے ۔