پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد کہتے ہیں کہ یقینی طور پر ان سے کوئی غلطیاں ہوئی ہوگی جس کی وجہ سے وہ ٹیم سے ڈراپ ہوئے کوشش ہوگی کہ ان غلطیوں کو نہ دہرائیں۔ سرفراز احمد نے کہا کہ کم بیک پر ایسی کارکردگی دیں گے جس سے دوبارہ ٹیم میں جگہ پکی ہوجائے، سیکنڈ چوائس وکٹ کیپر ہونے سے فرق نہیں پڑتا، ایسا ماضی میں بھی ہوا ہے اور اس سے ٹیم کو فائدہ پہنچتا ہے، ماضی میں راشد لطیف اور معین خان کے درمیان بھی ایسا ہی مقابلہ رہا تھا۔ اکتوبر 2019 میں پاکستان ٹیم کی قیادت سے برطرف اور ٹیم سے ڈراپ ہونے والے سرفراز احمد کو دورہ انگلینڈ کے لیے 29 رکنی اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے، 9 ماہ بعد قومی اسکواڈ میں شمولیت حاصل کرنے والے 33 سالہ سرفراز احمد نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ قومی اسکواڈ میں دوبارہ واپسی پر خو ش ہیں، کوشش کریں گے کہ جہاں موقع ملے وہ بہتر سے بہتر پرفارم کریں۔ سرفرا ز احمد نے کہا کہ ٹیم کے کپتان اور ریگیولر ممبر ہونے کے بعد یوں ڈراپ ہونے پر مایوسی تو ہوتی ہے لیکن مثبت بات یہ تھی کہ و ہ ڈومیسٹک کرکٹ اور پی ایس ایل میں مصروف ہوگئے جس کی وجہ سے خود کو منفی خیالات سے دور رکھنے میں مدد ملی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انسان سے غلطیاں ہوجاتی ہیں شاید ان سے بھی غلطی ہوئی ہوگی جس کی وجہ سے وہ ٹیم سے باہر ہوئے۔ سرفراز نے کہا کہ بطور کپتان ان کی ترجیح اور فوکس مجموعی کارکردگی رہا تھا لیکن اب وہ اس سے آزاد ہوکر اپنی پرفارمنس پر فوکس کریں گے۔ پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی کی نمبر ون ٹیم بنانے والے اور چیمپئنز ٹرافی جتوانے والے سابق کپتان نے مزید کہا کہ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ ماضی میں کپتان رہنے کے بعد اب عام کھلاڑی کے طور پر کھیلنا پڑے گا۔ سرفراز احمد نے کہا کہ وہ بطور کپتان پلیئرز پر کبھی رعبدار نہیں ہوئے اور نہ ہی زیادہ اونچی اڑان رکھی، انہوں نے ٹیم سے دورہ کے دوران اپنی فٹنس پر کافی کام کیا ہے، فرسٹ چوائس، یا سیکنڈ چوائس سے فرق نہیں پڑتا، جہاں موقع ملے گا ٹیم کے لیے پرفارم کریں گے اور کوشش کریں گے کہ ایک بار پھر ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کریں جس سے انہیں ٹیم میں مستقل جگہ پکی کرنے میں مدد ملے۔ سرفراز احمد کا کہنا تھا کہ وہ اپنا کم بیک ماضی سے بھی زیادہ بہتر اور یادگار بنانے کے خواہشمند ہیں۔ ایک سوال پر سابق کپتان نے کہا کہ پاکستان ٹیم کے ساتھ مضبوط کوچنگ اسٹاف ہے، ایسا مضبوط کوچنگ اسٹاف اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا اور یہ نوجوان پلیئرز کے پاس بہت زبردست موقع ہے کہ وہ بڑے کھلاڑیوں سے کچھ سیکھیں تاکہ مستقبل میں ان کے کام آسکے۔