ایرانی صدر مسعود پزشکیان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب، ایران کے موقف اور خطے کے حالات پر اہم تبصرے فراہم کرتا ہے۔ ان کی تقریر میں کئی اہم نکات شامل تھے، جن میں ایران کے ایٹمی پروگرام، اسرائیل کی جارحیت، اور خطے میں جاری تنازعات پر خاص طور پر زور دیا گیا۔
ایرانی صدر نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ایران نے کبھی ایٹم بم بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران نے عالمی برادری کے ساتھ اپنے وعدوں کو ہمیشہ اہمیت دی ہے اور اس نے کبھی ایٹمی ہتھیار بنانے کی نیت نہیں رکھی۔ ان کا یہ موقف ایران کے دیرینہ موقف کو دہراتا ہے جس میں وہ اپنے جوہری پروگرام کو صرف پرامن مقاصد کے لیے قرار دیتے ہیں۔
مسعود پزشکیان نے جون میں اسرائیل اور امریکا کی طرف سے ایران پر کیے گئے حملوں کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے ان حملوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور "وحشیانہ جارحیت" قرار دیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر دنیا کے کسی دوسرے ملک پر ایسے حملے کیے جائیں تو کیا وہ انہیں برداشت کر پائے گا؟
ایرانی صدر نے یورپی ممالک کی جانب سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے 2015 کے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور ایران کے قانونی اقدامات کو غیر قانونی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
مسعود پزشکیان نے اسرائیلی حکام کی جانب سے "گریٹر اسرائیل" بنانے کے منصوبے کی مذمت کی، جس کا مقصد مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا اور ہمسایہ ممالک میں بفر زون بنانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ مضحکہ خیز ہے اور اسرائیل کے اعلیٰ حکام اس کو ڈھٹائی سے بیان کر رہے ہیں۔
ایرانی صدر نے اس بات کا اظہار کیا کہ اسرائیل اب خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور اس کے اتحادی طاقت کے ذریعے اپنی موجودگی مسلط کرتے ہیں اور اسے "طاقت کے ذریعے امن" قرار دیتے ہیں، جو کہ حقیقت میں ایک جھوٹ ہے۔
اپنی تقریر کے آخر میں مسعود پزشکیان نے کہا کہ ایران عالمی شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے اور عالمی تنہائی سے نکلنے کے لیے تیار ہے۔ ایران عالمی امن پسند ممالک کے لیے ایک قابل اعتماد ساتھی ہے، اور اس کی شراکت داری عزت، اعتماد اور مشترکہ مستقبل پر مبنی ہو گی۔