تازہ ترین

وزیراعظم عمران خان آج کراچی کا دورہ کرینگے

وزیراعظم-عمران-خان-آج-کراچی-کا-دورہ-کرینگے

وزیر اعظم عمران خان آج ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچیں گے، جہاں وہ اتحادیو ں سے ملاقات بھی کریں گے۔ ایم کیو ایم کراچی آمد پر وزیراعظم عمران خان دو بجے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے مرکزی دفتر بہادر آباد بھی جائیں گے۔ عمران خان کا بطور وزیراعظم ایم کیو ایم مرکز کا یہ پہلا دورہ ہوگا۔ دورے کے دوران وزیراعظم عمران خان ایم کیو ایم کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور ریگر رہنماﺅں سے اہم ملاقات کریں گے۔ ملاقات میں گورننس سمیت اتحادیوں کے درمیان طے معاہدے پر بھی بات چیت ہوگی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم کے درمیان معاہدے پر پیشرفت کا جائزہ لیا جائیگا۔ ملاقات کے موقع پر متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما وزیراعظم عمران خان کے سامنے اپنے تحفظات رکھیں گے، اس موقع پر عدم اعتماد کی تحریک سمیت موجودہ صورت حال بھی زیر غور آئے گی۔ وزیراعظم عمران خان سے تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی ملاقات بھی شیڈول ہے۔ جی ڈی اے وزیراعظم عمران خان کے دورہ کراچی کے دوران گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے پیر پگاڑا سے ملاقات نہیں ہو سکے گی۔ رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو کا کہنا ہے کہ پیر پگارا کی طبیعت ناسازی کے باعث ملاقات نہیں ہوگی، جب کہ پیر صدرالدین شاہ ذاتی مصروفیات کے باعث خیرپور میں ہیں۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ فنکشنل گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) میں شامل ہے اور جی ڈی اے وفاق میں حکومتی اتحادی جماعت ہے۔ تحریک عدم اعتماد جمع واضح رہے کہ اپوزیشن ارکان نے وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف 8 مارچ بروز منگل کو قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی۔ اپوزیشن کے دعویٰ کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد پر ن لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی سمیت 86 اراکین کے دستخط ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے دعویٰ سامنے آیا ہے کہ اس نے قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لیے نمبرز پورے کر لیے ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے 197 سے 202 ارکانِ قومی اسمبلی ساتھ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ مسلم لیگ ن کے پارلیمانی پارٹی اجلاس میں کیا گیا تھا۔ صدر ن لیگ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد موو کر رہے ہیں، حکومت کو تاریخی شکست ہو گی۔ اس سے قبل ن لیگی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے تمام ارکان قومی اسمبلی کو اسلام آباد سے باہر جانے سے منع کردیا گیا ہے۔ ارکان کو بتایا گیا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جلد پیش ہونی ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی قواعد کے مطابق اسپیکر کم از کم 3 دن کے بعد اور 7 دن سے پہلے قومی اسمبلی اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔ اسمبلی رولز کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد کی ریزولوشن پیش کیے جانے کے تین سے لے کر سات دن کے دوران قومی اسمبلی میں اس پر ووٹنگ کروانے کے پابند ہیں۔ قبل ازیں قومی اسمبلی کے ایڈیشنل سیکریٹری نے حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے جمع کروائی گئی ریکوزیشن وصول کی۔ میلسی میں خطاب چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے صوبہ پنجاب کے علاقے میلسی میں عوامی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے لیے تیار ہیں، انھوں نے اپوزیشن سے سوال کیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں وہ اُن (اپوزیشن) کے ساتھ جو کچھ کریں گے کیا وہ اس کے لیے تیار بھی ہیں؟ تحریک عدم اعتماد کیا ہے؟ آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی جا سکتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے قومی اسمبلی کی کل رکنیت کے کم از کم 20 فیصد اراکین کو ایک تحریری نوٹس اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد تین دن سے پہلے یا سات دن بعد اس تحریک پر ووٹنگ نہیں ہو سکتی۔ قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جانے پر وزیر اعظم اپنے عہدے پر فائز نہیں رہ سکیں گے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اس کی حمایت میں 172 ووٹ درکار ہیں۔ تحریک کامیاب ہوگی تو؟ وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں کامیاب ہو جاتی ہے تو انھیں اپنا عہدہ چھوڑنا ہو گا۔ اس کے بعد آئین کے مطابق صدرِ پاکستان قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت کو حکومت بنانے کی دعوت دیں گے۔ ’اس جماعت کو 172 ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنی ہوگی تا کہ وہ حکومت بنا سکے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر پاتی تو صدر تیسری بڑی جماعت کو دعوت دے سکتے ہیں۔‘ آئین کے مطابق صدر اس دوران ہٹائے گئے وزیرِ اعظم کو اس وقت تک کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں جب تک نیا وزیرِ اعظم منتخب نہیں ہو جاتا تاہم اس دوران وہ وزیرِ اعظم اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ ’ایک مرتبہ جب اکثریت حاصل کرنے کے بعد دوسرا وزیرِ اعظم منتخب ہو جاتا ہے تو اس کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ اسمبلی تحلیل کر دے جس کے بعد نئے انتخابات نگران حکومت کے تحت ہوں گے۔‘ آئین کے مطابق اگر وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد منظور ہو جائے اور کوئی بھی دوسری جماعت یا امیدوار واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہو جائے تو صدر اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ایک نگراں حکومت نئے انتخابات کروانے کی پابند ہو گی۔ پارٹی پوزیشن قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق حکومتی جماعت پی ٹی آئی کو اتحادیوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان اراکین میں خود پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین، ایم کیو ایم کے سات، بی اے پی کے پانچ، مسلم لیگ ق کے بھی پانچ اراکین، جی ڈی اے کے تین اور عوامی مسلم لیگ کے ایک رکن حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ دوسری جانب حزب اختلاف کے کل اراکین کی تعداد 162 ہے۔ ان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 اراکین، متحدہ مجلس عمل کے پندرہ، بی این پی کے چار جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے علاوہ دو آزاد اراکین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔ دیگر اتحادی گر پارٹی پوزیشن دیکھی جائے تو حزب مخالف کو دس مزید اراکین کی حمایت درکار ہے۔ جماعت اسلامی، جن کے پاس قومی اسمبلی کی ایک نشست ہے، نے فی الحال کسی کا ساتھ دینے کا اعلان نہیں کیا۔ اب حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کے علاوہ جہانگیر ترین گروپ سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ اس وقت سات ممبران قومی اسمبلی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانےوالی خبریں