پشاور ہائیکورٹ نے مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں درج مقدمے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) محمد صفدر کی قبل از گرفتاری عبوری ضمانت میں 5 اپریل تک توسیع کردی۔ پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس محمد نعیم انور نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت کیپٹن (ر) محمد صفدر کے وکیل عبد الطیف آفریدی نے کہا کہ ان کے پاس مبینہ جرم کی ایف آئی آر کے علاوہ اس کیس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسٹ کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) عمران نواز عالم نے 9 فروری کو عدالتی کارروائی میں شرکت کے بعد میڈیا ٹاک کے دوران مسلح افواج کے اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے اور مشتعل کرنے کے الزام میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ سماعت ملتوی کردی جائے تاکہ وہ ریکارڈ تک رسائی حاصل کرلیں۔ ہائیکورٹ نے کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف 10 مارچ کو قبل از گرفتاری عبوری ضمانت منظور کی تھی جس میں ایک ایک لاکھ کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔ ایسٹ کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس افسر عمران نواز عالم نے ایف آئی آر میں دعوی کیا کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف حکومت کی تحریری اجازت حاصل کرنے کےبعد مقدمہ درج کیا تھا۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120 بی، 124 اے اور 505 کے تحت درج ہونے والی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں مؤقف اپنایا گیا کہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں عمران خالد بٹ کی رہائش گاہ پر مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما کیپٹن (ر) محمد صفدر کی زیر قیادت ایک اجلاس ہوا، جس میں کیپٹن (ر) صفدر نے صوبائی اور وفاقی حکومت کو بزور احتجاج ختم کرنے اور افواج پاکستان اور اس کے اعلیٰ افسران کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ کیپٹن (ر) صفدر نے دعویٰ کیا کہ ان کی میڈیا ٹاک ایف آئی آر میں درج الزامات کے مترادف نہیں ہے۔ ایس ایچ او نے دعوی کیا کہ کیپٹن (ر) صفدر نے اپنی نیوز کانفرنس کے ذریعے پاکستان اور اس کے اداروں کو بدنام کرنے اور اداروں میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے لوگوں کو حکومت اور اداروں کے خلاف بھڑکانے اور مسلح افواج کے اہلکاروں اور ان کی قیادت کے درمیان جھڑپیں پیدا کرنے کی بھی کوشش کی۔ پشاور ہائیکورٹ نے مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں درج مقدمے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) محمد صفدر کی 22 مارچ تک قبل از گرفتاری عبوری ضمانت منظور کی تھی۔ خیال رہے کہ کیپٹن (ر) صفدر نے میڈیا سے دوران گفتگو کہا تھا کہ ہمارے اس وقت قائد مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ جس شہر میں گرفتاری ہوگی وہاں کے کور کمانڈر کے گھر کے باہر دھرنا ہوگا اور ہم احتجاج کریں گے اور اپنے قائدین کو باہر نکال کر اٹھیں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں نے مولانا سے کہا کہ پہلے زمانے میں گرفتاریوں پر لوگ ڈی چوک جاتے تھے جس پر مولانا نے کہا کہ اس وقت جمہوریت تھی، اس پر میں نے کہا کہ عمران خان کا گھیراؤ نہ کریں تو مولانا نے جواب دیا کہ عمران کی حیثیت کیا ہے، گرفتاری ہو تو کورکمانڈر کے گھر کا گھیراؤ کریں۔ خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے بلکہ اس سے قبل وہ دیگر معاملات میں گرفتار بھی ہوچکے ہیں جبکہ انہیں عدالت سے کرپشن ریفرنس میں سزا بھی کاٹنی پڑی ہے۔ یاد رہے کہ اکتوبر 2019 میں مبینہ طور پر ریاستی اداروں کے خلاف بات کرنے پر پولیس نے کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ اس حوالے سے درج ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ’کیپٹن (ر) صفدر نے حکومتِ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور عوام کو اکسایا‘۔ بعد ازاں پنجاب پولیس نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا تھا، جس کے بعد عدالت نے ان کی عبوری ضمانت منظور کرلی تھی۔ یاد رہے کہ سال 2018 میں کیپٹن (ر) صفدر کو احتساب عدالت نے ایوین فیلڈ ریفرنس میں ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ایون فیلڈ یفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز، حسن اورحسین نوازکے علاوہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر ملزم نامزد تھے، جبکہ عدالت نے عدم حاضری کی بنا پر نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیا تھا۔ سزا سنائے جانے کے بعد ان کی روپوشی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں تاہم 8 جولائی 2018 کو انہوں نے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کے سامنے قومی احتساب بیورو (نیب) کو گرفتاری دے دی تھی۔ بعدازاں 19 ستمبر 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزاؤں کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے معطل کیے جانے کے بعد انہیں اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔