اسلام آباد ہائی کورٹ نے دارالحکومت میں نئے سیکٹرزکی تعمیر پر متاثرین کومعاوضے کی عدم فراہمی پر سی ڈی اے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ منگل کواسلام آباد ہائی کورٹ میں متاثرین اسلام آباد کو معاوضوں کی فراہمی کےکیس کی سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سی ڈی اے سے استفسار کیا کہ نئے سیکٹر کی تعمیر کے باعث متاثرین کیلئے کُل معاوضوں کی کتنی ادائیگیاں زیرالتوا ہیں؟۔سی ڈی اے کے وکیل نے بتایا کہ پورےاسلام آباد کےتوابھی معلوم نہیں،متعلقہ ڈیپارٹمنٹ ہی بتاسکتا ہے۔ اس پرچیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں تو پھرچیئرمین سی ڈی اے کو بلا لیتے ہیں،سی ڈی اے کوبا اثرطبقےنےقابوکررکھاہے،عام آدمی کیلئےآپ کام نہیں کرتے، سن 1960 سے متاثرین در بدر دھکے کھا رہے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید ریمارکس دئیے کہ ایک خاتون بیوہ ہے،اس کوای 12 کے بجائےڈی 12 میں پلاٹ کیوں نہ ملے،اسلام عورتوں کوحق دیتا ہے،سی ڈی اے اپنی فہرست سےان کونکال رہا ہے،سی ڈی اےبڑے سیکٹرزمیں پلاٹس کی سہولت عام آدمی کوکیوں نہیں دیتا؟جن سے زمینیں لی گئیں، ان کے لیے تھکے ہوئے سیکٹرز ہی کیوں؟ایف اور ای سیکٹرز میں عام آدمی کو پلاٹ کیوں نہیں دیا جا سکتا؟۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سی ڈی اے پلاٹ تقسیم کررہا ہےاورجن کا حق ہےانہیں نہیں دے دہا، متاثرین کوایف 6 میں پلاٹ کیوں نہ دئیے جائیں؟سی ڈی اے ان کی زمینوں سےدوسروں کو امیر بناتا ہے۔ عدالت نے سی ڈی اے کے قیام سے اب تک کی تمام پالیسیوں کی رپورٹ کل بروز بدھ تک طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔