لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے رشتہ داروں کی جانب سے کار سرکار میں مداخلت کی خبریں اور شکایات تو کئی مرتبہ منظر عام پر آئی ہیں تاہم اب ایوان وزیراعلیٰ سے جعلی ڈائریکٹوز جاری ہونے کا انکشاف ہو گیا ہے۔ قومی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ ڈائریکٹوزایوان وزیراعلیٰ سے ایک پٹرول پمپ کا یو ٹرن لینے کے لیے جاری کیا گیا جس پروزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ڈپٹی کمشنر قصور کو انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبہ کے تمام انتظامی و پولیس افسروں کو ہدایات جاری کیں کہ وہ کسی بھی فرد، چاہے وہ وزیر اعلیٰ کا حقیقی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، کے کہنے پر کوئی بھی غیر قانونی کا م نہ کریں۔ ایوان وزیر اعلیٰ سے جاوید فلنگ اسٹیشن مین دیپال پور روڈ کے سامنے یوٹرن بنانے کے لیے مبینہ طورپر جعلی ڈائریکٹو جاری ہوا تھا جس پر ڈی ایس لائزن / سی ایم او/018830 مورخہ 11جولائی تحریرتھا ۔یہ ڈائریکٹو ایوان وزیر اعلیٰ سے سیکرٹری کمیونیکیشن اینڈ ورکس ، ڈپٹی کمشنر قصور اور چیف انجینئر پنجاب ہائی ویز کو لکھا گیا ۔ ایوان وزیر اعلیٰ میں ہونے والی ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ ڈائریکٹو ایوان وزیر اعلیٰ کی طرف سے جاری نہیں ہوا جبکہ سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو اور ڈپٹی کمشنر کو فوٹو کاپی کی صورت میں موصول ہوا تھا۔ ایوان وزیر اعلیٰ نے ڈپٹی کمشنر قصور کو حکم دیا کہ وہ اس جعلی ڈائریکٹو کے جاری ہونے کے حوالے سے تحقیقات کریں اور پتہ لگائیں کہ اس جعلی ڈائریکٹو کے جاری کرنے میں کون سے اہلکار ملوث ہیں۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ایوان وزیر اعلیٰ کے ایک سینئیر اہلکار نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد کچھ افراد نے خود کو وزیر اعلیٰ پنجاب کا رشتہ دار ظاہر کرکے سرکاری امور میں مداخلت کرنا شروع کر دی تھی ، لیکن شکایات سامنے آنے پر وزیر اعلیٰ نے انتظامی افسروں کو ہدایات جاری کیں کہ وہ معاملہ کی تصدیق ایوان وزیر اعلیٰ سے کریں لیکن اب سلسلہ جعلی ڈائریکٹوز تک جا پہنچا ہے ۔ اب بھی بزدار فیملی کے کچھ افراد ایوان وزیر اعلیٰ اور پی کام کی اینکسی میں رہائش پذیر ہیں او ر مبینہ طور پر سرکاری امور میں مداخلت اور سرکاری وسائل استعمال کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ حال ہی میں اس حوالے سے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن احمد علی بخاری نے بھی وزیراعلیٰ پنجاب کے رشتہ داروں پر سنگین الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے کیس میں مداخلت کی جبکہ انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں اور کیس کو صحیح سمت میں لے جانے پر ان کا تبادلہ کر نے کے ساتھ ساتھ تفتیشی افسر کو بھی تبدیل کر دیا گیا۔