دنیا ئے موسیقی کے بادشاہ استاد امانت علی خان کو ہم سے بچھڑے 51 برس بیت گئے ہیں۔
کلاسیکی موسیقی میں 'سند' کا درجہ رکھنے والے شام چوراسی گھرانے کے استاد امانت علی خان کی 51 ویں برسی عقید ت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔
ابن انشا کی غزل 'انشا جی اٹھو اب کوچ کرو' کو اپنی کانوں میں رس گھولتی آواز کے ساتھ گانے کے بعد جو شہرت انہیں ملی تو دنیا بھر میں موسیقی کو ایک نئی پہچان ملی، ان کی غزلیں اورگیت آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھولتی ہیں۔
امانت علی خاں نے چھوٹی عمر سے ہی محفلوں میں گانا شروع کردیاتھا اورریاست پٹیالہ کے راجہ کے دربار سے وابستہ ہوگئے تھے،کہا جاتا ہے کہ وہ لتا منگیشکر کے پہلے اُستاد تھے جب وہ 1945ء میں ممبئی آئیں اورہندوستانی کلاسیکی موسیقی سیکھنا شروع کی،قیام پاکستان کے بعد اُستاد امانت علی خاں اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مستقل طور پر لاہور شفٹ ہو گئے اور منٹو پارک کے قریبی علاقے کریم پارک میں رہائش پذیر ہوئے۔
پاکستان آنے کے بعد اُستاد امانت علی خان نے ریڈیو پر گانا شروع کیا پھرپٹیالہ گھرانے کے نمائندے کی حیثیت سے جنوبی ایشیا کا دورہ کیا،انہیں راگ،ٹھمری اور غزل گانے میں مہارت حاصل تھی۔جب امانت علی خاں اور ان کے بھائی فتح علی خاں نے اپنا کیریئر شروع کیا تواس وقت کلاسیکی موسیقی عروج پر تھی،امانت علی خاں کی غیرمعمولی گائیکی کی وجہ سے فوری طور پر ان کا نوٹس لیا گیااوران کے گانے کے انداز کو اہل موسیقی نے بہت پسند کیا۔50ء اور 60ء کی دہائی میں انہوں نے بہت شُہرت حاصل کی۔
ان کے گائے ہوئے مشہور گیتوں میں ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے،چاند میری زمیں پھول میرا وطن، موسم بدلا رُت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے اور یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے بھی شامل ہیں،ان کے گائے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں کلاسیکی اور نیم کلاسیکی گیت آج بھی بڑے ذوق وشوق سے سنے جاتے ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل انہوں نے اپنے باقاعدہ فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا اور کم عمری ہی میں ٹھمری اورغزل میں مہارت حاصل کر لی۔ استاد امانت علی خان کو فنی خدمات پر حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔
فن موسیقی کے بے تاج بادشاہ 17 ستمبر 1974 کو باون برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے لیکن وہ اپنے فن کی وجہ سے آج بھی اپنے لاکھوں پرستاروں کے دلوں میں زندہ ہیں۔