اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ نے پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دے دی، پالیسی کے تحت شہریوں کے تحفظ اور معاشی تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، اجلاس میں 18 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ وفاقی کابینہ نے پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دے دی۔ نیشنل سیکیورٹی پالیسی قومی سلامتی ڈویژن کی جانب سے پیش کی گئی، پالیسی سنہ 2022 تا 2026 کے لیے ہے۔ قومی سلامتی پالیسی کے تحت شہریوں کے تحفظ اور معاشی تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ قومی سلامتی پالیسی کی گزشتہ روز نیشنل سیکیورٹی اجلاس میں منظوری دی گئی تھی، پالیسی پر عملدر آمد کے لیے پالیسی فریم ورک بھی تیار کیا گیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سیاسی، معاشی اور کرونا وائرس کی صورتحال پر غور کیا گیا۔ کابینہ کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور آئی ووٹنگ کی پیش رفت پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کے ایجنڈے میں ہاؤس بلڈنگ فنانس کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تعیناتی کی منظوری بھی شامل تھی۔ علاوہ ازیں ایس ای سی پی کے چیئرمین، ارکان کے استعفے، نئے ارکان کی تعیناتی، مانیٹری اینڈ فسکل پالیسیز کو آرڈینیشن بورڈ میں نامور اکنامسٹ کی نامزدگی اور انٹر بورڈ کو آرڈینیشن کمیشن ایکٹ کی اصولی منظوری بھی اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ تھی۔ اجلاس میں ساجد مجید چوہدری کے کیس میں انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری، پیمرا کے فل ایگزیکٹو ممبر کی تعیناتی کی منظوری، انسداد دہشت گردی ایکٹ مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم کی منظوری اور سی ڈی اے کے پراجیکٹ کے پلان کی منظوری بھی ایجنڈے میں شامل تھی۔ کابینہ اجلاس میں پاکستان سے 2 ملزمان کی اٹلی حوالگی، 1 ملزم محمد عثمان کی متحدہ عرب امارات حوالگی اور بینکنگ کورٹ 1 ملتان کی ڈیرہ اسماعیل خان منتقلی کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ میری ٹائم افیئرز کے گوادر میں پلانٹ کے عملدر آمد کی منظوری، نیشنل میڈیکل اتھارٹی کے ایگزیکٹو ممبر کی تعیناتی کی منظوری، ادویات کی تیاری میں تبدیلی کی سفارشات کی منظوری، کیوبا کو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے تعاون کی منظوری اور پاکستان پلاننگ اینڈ مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ بل بھی منظوری کے لیے کابینہ کو پیش کیا گیا۔ اجلاس کے ایجنڈے میں کابینہ کمیٹی ادارہ جاتی اصلاحات کے یکم دسمبر کے فیصلوں کی توثیق اور کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کے 16 اور 17 دسمبر کے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق بھی شامل تھی۔