روس سے تیل کی فراہمی کے معاہدے کے لیے روسی وزیر توانائی انیس جنوری کو پاکستان کا دورہ کریں گے، معاہدے کی صورت میں پاکستان کو ماہانہ کروڑوں ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے۔ پاکستان کی یومیہ تیل کی کھپت 3 لاکھ 80 ہزار بیرل ہے، جس میں سے 70 ہزار بیرل تو مقامی پیداوار ہے، اور باقی 3 لاکھ 10 ہزار بیرل بیرون ملک سے منگوانا پڑتا ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی موجودہ قیمت 80 ڈالر فی بیرل ہے، جس کے مطابق پاکستان ماہانہ 93 لاکھ بیرل تیل درآمد کرتا ہے، اور اس پر 74 کروڑ 40 لاکھ ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ پاکستان کو یہی خام تیل روس سے 80 کے بجائے 60 ڈالر فی بیرل مل سکتا ہے، اور اگر پاکستان اپنی ضرورت کا 50 فیصد خام تیل یعنی 45 لاکھ بیرل بھی روس سے درآمد کرنے کا معاہدہ کر لیتا ہے تو معاہدے کے بعد پاکستان کو امپورٹ بل کی مد میں ماہانہ 47 کروڑ ڈالر کی بچت متوقع ہے۔ اسی طرح پاکستان سالانہ 11 کروڑ 31 لاکھ 50 ہزار بیرل خام تیل درآمد کرتا ہے، موجودہ قیمت کے مطابق اس پر 9 ارب 5 کروڑ 20 لاکھ ڈالر لاگت آتی ہے، اگر پاکستان روس سے اپنی ضرورت کا نصف تیل منگوائے تو سالانہ 5 کروڑ 47 لاکھ 50 ہزار بیرل بنے گا اور 3 ارب 28 کروڑ 50 لاکھ ڈالر مالیت بنے گی، یوں پاکستان کو 6 ارب 22 کروڑ ڈالر کی سالانہ بچت ہوگی۔ روس کے پاس 8 قسم کے خام تیل ہیں جن میں سے سوکال اور یورال 2 ایسی قسمیں ہیں جن کو پاکستان میں ریفائن کر کے استعمال کیا جاسکتا ہے، اور انہی کی درآمد پر بات چیت جاری ہے، اور اسی سلسلے میں روس کے وزیر 19 جنوری کو پاکستان کا دورہ کریں گے۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ معاہدے کے بعد فروری 2023 سے تیل کی خریداری شروع کردے، اس کے نتیجے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں30 سے 40 روپے فی لیٹر کم ہوں گی، ٹرانسپورٹ اور بجلی کی لاگت میں بھی کمی آئے گی، جس سے مہنگائی پر قابو پانا ممکن ہوسکے گا۔