بلبل صحرا کا خطاب حاصل کرنے والی پاکستان کی مقبول لوک گلوکارہ ریشماں کی آج نویں برسی منائی جارہی ہے ۔ وہ اپنے لازوال گیتوں کی بدولت آج بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں ۔ نگری نگری گھوم کر گڑوی بجاتے اپنی آواز کا جادو جگانے والی ریشماں کامیابیوں کی بلندیوں پر پہنچنے کے باوجود بھی اپنے ماضی کو نہیں بھولیں تھیں ۔ شہرت حاصل کرنے کے بعدبھی ان کےرہن سہن میں وہی سادگی اور مزاج میں نرمی جھلکتی تھی۔ ریشماں 1947 میں بھارتی ریاست راجھستان میں پیداہوئیں اور ان کا تعلق ایک خانہ بدوش خاندان سے تھا ۔ تقسیم ہند کے وقت اپنے خاندان کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئیں۔ لعل شہباز قلندر کے مزار پر انہیں گاتے ہوئے ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی نے سنا اوران کی آواز نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ پھر ریڈیو پر انہیں گانے کا موقع دیاگیا ،وہ محض 12 برس کی تھیں جن ریڈیو پاکستان سے ان کی آواز کو پہلی بار گیت نشر کیاگیا ۔ اس وقت انہوں نے ''لال میری'' گیت گایا جو بے انتہا مشہور ہوا اورپھر دھیرے دھیرے ریشماں مقبول فوک گلوکارہ بن گئیں۔ ان کی آواز میں صحرا کی وسعت تھی، جنگل کا درد تھا، دریا کی روانی تھی ۔1960 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن کی بنیاد رکھی گئی تو ریشماں نے ٹی وی کے لیے بھی گانا شروع کر دیا۔ انہوں نے پاکستانی کے علاوہ بھارتی فلموں کے لیےبھی گیت گائےاوران کی آواز سرحد پار بھی سنی جانے لگی۔ بالی وڈ میں اُ ن کو راج کپور نے اپنی فلم” بوبی“کے لیے گانے کی پیشکش کی جہاں ان کے پہلے ہی گیت ”آکھیوں کو رہنے دے“ نے عالمی شہرت حاصل کی۔پھرمعروف بھارتی ہدایت کار سبھاش گھئی نے ان کی آواز اپنی ایک فلم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں ریشماں نے فلم'' ہیرو'' کے لیے ''لمبی جدائی'' گانا گایاجو ان کی پہچان بھی بنا اور جس نے ان کی شہرت کو مزید بلندیوں تک پہنچایااور یہ گانا آج بھی سرحد کے دونوں جانب انتہائی مقبول ہے ۔ ریشماں کے کچھ دیگر مقبول گیتوں میں سُن چرخے دی مِٹھی مِٹھی کُوک ماہیا مینوں یاد آؤندا، وے میں چوری چوری، ’دما دم مست قلندر‘، ’انکھیاں نوں رین دے انکھیاں دے کول کول اور ’ہائے ربا نیئوں لگدا دِل میرا‘ شامل ہیں۔انہوں نے اردو،سندھی، سرائیکی، پنجابی، پشتو اور راجستھانی زبان کے علاوہ فارسی، ترکی اور عربی زبان میں کئی بار صوفیانہ کلام پڑھا۔ ریشماں انتہائی سادہ اور نرم مزاج طبیعت کی مالک تھیں انہیں انگریزی نہیں آتی تھی تو انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ جب بھی کوئی انگریز بات کرے تو'' یس'' میں ہر جواب دے دینا۔جب ان کے پاس ایک انگریز آیا اور اس نے سوالات کیے تو انہوں نے سب سوالات کے جواب میں ''یس''کہے دیا ۔ ریشماں کے پاس موجود سفیر کی اہلیہ نے کہا کہ ریشماں ہر جواب میں یس کہی جارہی ہو تو انہوں نے کہا کہ آپ رہنے دیں میں اس لیے کہے رہی تاکہ یہ انگریز یہ نہ سمجھے کہ میں پڑھی لکھی نہیں ہوں ا ور ان کی سادگی یہ ہی خصوصیت ان کے مداحوں کی نظر میں ان کو مزید منفرد اور خوبصورت بناتی تھی ۔ ریشماں کی سریلی آواز کا جادو سرحد پار بھی سر چڑھ کر بولا اور انہیں حکومت پاکستان صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی ، ستارہ امیتاز اور ’لیجنڈز آف پاکستان سمیت متعدد اعزازات سے نوازا ۔ریشماں کو 80 ءکی دہائی میں گلے کے کینسر کی تشخیص ہوئی مگر طویل علالت کے باوجود بھی وہ اپنی گائیکی کے جوہردکھاتی رہیں ، ریشماں 66 برس کی عمر میں 3 نومبر 2013 کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئیں ۔ فن گائیکی کو ایک نئی جہت دینے والی معروف لوک گلوکارہ ریشماں ہم میں نہیں لیکن ان کی آواز آج بھی ہمارے کانوں میں رس گھول رہی ہے ۔